ہوم << عیدقرباں اور کانگو وائرس کا چرچا - مولانامحمد جہان یعقوب

عیدقرباں اور کانگو وائرس کا چرچا - مولانامحمد جہان یعقوب

%d9%85%d9%88%d9%84%d8%a7%d9%86-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86-%db%8c%d8%b9%d9%82%d9%88%d8%a8 عید قرباں قریب ہے۔ مسلمان ہوش ربا مہنگائی کے باوجوداللہ تعالیٰ کی توفیق سے جانوروں کی خریداری کر رہے ہیں۔ بعض لوگ ہر معاشرے میں ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنے مخصوص مفادات کے اسیر ہوتے ہیں۔ انھیں کسی کی جان، ایمان، عقیدہ، نظریہ، دین، دھرم غرض کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی۔ انھیں صرف اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر کسی قوت کے تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں، سو انھیں اپنی تنخواہ ’’حلال‘‘ کرنے سے غرض ہوتی ہے۔ یہ کسی کے غلام ہوتے ہیں اور ان کا مطمح نظر صرف اپنے مائی باپ اور آقا ولی نعمت کی خوشنودی ہوتا ہے۔ یہ مجبور ہوتے ہیں سو ان مجبوروں کو معذور ہی جاننا چاہیے۔
عید قرباں کے نام سے ہی مترشح ہے کہ مسلمان اس عید میں ایک عظیم فریضہ ادا کرتے ہیں،جسے قربانی کہا جاتا ہے۔ یہ قربانی کیا ہے؟ یہ ہمیں کسی لبرل اور سیکولر سے پوچھنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ آج سے سوا چودہ سو سال قبل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یہ سوال حبیب کبریا ﷺ سے کرچکے اور جواب آچکا: یہ تمھارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔گویا، اس کوسمجھنے کے لیے کسی طویل عقلی فلسفے کی ضرورت نہیں۔ کسی حیل وحجت کی مجال بھی نہیں کہ یہ سنت ابراہیمی ہے اور تمھارے دین کا ایک نام ملت ابراہیمی بھی ہے، سوتم اس پر عمل کرو۔ اس کے بدلے کیاملے گا؟ اس کا جواب بھی آگیا: جانور کے ہر بال اور اون والے جانور کی اون کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ یہ جانور پل صراط پر تمھاری سواری کا کام دیں گے۔ جانور کا خون زمین پر گرتے ہی تمھارے صغیرہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔ اب ایک سوال رہ جاتاتھا، کہ کیا ہم اس خطیر رقم سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا کوئی اور کام ان دنوں میں، قربانی کے بجائے کرسکتے ہیں، مثلاً: خدمت خلق، غریب بچیوں کی شادیاں، رفاہ عامہ کے کام، کہ یہ سب بھی ثواب کے کام ہیں اور اللہ کی رضا و خوشنودی کا حصول ان کے بدلے بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا بھی آقائے نامدارﷺ نے دوٹوک جواب ارشاد فرما دیا: ان دنوں میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ہی نہیں۔ لیجیے! اب معاملہ صاف ہوگیا کہ قربانی ہی کرنی ہوگی، اس کا کوئی نعم البدل نہیں، اس کے برابر یا اس سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو امت مسلمہ، اپنی تمام تر دینی پستی کے باوجود اچھی طرح سمجھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سال قربانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی نوٹ کیا گیا ہے۔ حالانکہ قربانی کے خلاف دلائل کے نئے نئے رخ سے ہر سال سامنے لائے جاتے ہیں۔ نئے نئے حربے، نت نئے حیلے، شیطان اپنے دوستوں کو نئی سے نئی باتیں سجھاتا رہتا ہے، سو دھول اڑائی جا رہی ہے، اڑائی جاتی رہے گی اور سو باتوں کی ایک بات مسلمان ایک ہی جواب دیں گے، اپنے عمل سے بھی اور زبان حال سے بھی
تجھے خودی پسند مجھے خدا پسند
تیری جدا پسند میری جدا پسند
آج کل قربانی کے جانوروں سے لگنے والی ایک بیماری کا کافی چرچاہے، جسے کانگو وائرس کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک بخار ہے جس کے بارے میں ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ: کانگو بخار یعنی ’کریمین کانگو ہیمرجک فیور‘ جان لیوا بخار ہے جو مویشیوں کی جلد میں موجود ٹکس (پسو)کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر یہ ٹکس کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ انسان فوری طور پر کانگو بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کے جراثیم ایک متاثرہ شخص سے دوسرے صحت مند شخص کو فوری طور پر لگ جاتے ہیں، یہ ایک متعدی بیماری ہے، جس میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ فوری علاج پر توجہ نہ دی جائے تو جگر اور تلی بڑھ جاتی ہے، ناک، کان، آنکھوں اور مسوڑھوں سے خون رسنا شروع ہوجاتا ہے اور انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مریض اس بیماری کے دوسرے ہفتے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اب تک اس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین موجود نہیں۔
یہ بیماری وطن عزیز میں کب آئی، اس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ: اس وائرس کی پہلی شکار آزاد کشمیر کے علاقے باغ کی ایک خاتون تھی، ڈاکٹروں کے مطابق یہ مریضہ کانگو وائرس کا شکار ہو کر زرد بخار میں مبتلا ہوئی جس کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکی۔ اب تک اس بخار سے ہونے والی اموات کی تعداد دس بتائی جاتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق چیک پوسٹیں قائم کی جا رہی ہیں، جو باہر سے شہر میں آنے والے ہر جانور کا طبی معائنہ کرکے اس میں گانگو وائرس کی موجودگی یا عدم موجودگی کی تصدیق کرے گا۔ لیکن پنجاب اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اختر کا یہ سوال وزن رکھتاہے کہ قربانی کے جانوروں میں کانگو وائرس ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق کون کرے گا؟ یہ ضمانت کون دے گا کہ ہسپتالوں یا لیبارٹریوں میں کانگو وائرس کی تشخیص کے لیے کٹ دستیاب ہے؟ عید الاضحی پرجانوروں کی چیکنگ کا کیا طریقہ ہوگا؟ یقینا ان سوالات کا جواب ضروری ہے اور اس سلسلے میں جو اقدمات اب تک بروئے کار لائے گئے ہیں وہ ناکافی ہیں۔
طبی ماہرین کا یہ کہنا بھی وزن رکھتا ہے کہ اس وائرس کے ٹیسٹ انتہائی اہم ہیں اور ہر لیباریٹری میں ان کی سہولت بھی دستیاب نہیں۔ پاکستان، جہاں کی نصف آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جہاں شرح خواندگی بھی حوصلہ افزا نہیں، وہاں اس وائرس کی تشخیص جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ غریب جسے دو وقت نان جویں میسر نہیں، وہ ان مہنگے ٹیسٹوں کا تحمل کیسے کرے گا؟ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کوحل کرے، صرف ڈر اور خوف کی فضا پیدا کرنا یا قراردادیں منظور کرنا کافی نہیں۔مویشی منڈیوں میں صرف ویٹرنری ڈاکٹرز اور اسٹاف کی ہی ضرورت نہیں، وہاں آنے والوں کو فوری طبی امداد دینے کا بھی خاطرخواہ انتظام ہونا چاہیے۔ اب تک مویشی منڈیوں کی صورت حال تواسی بات کی غمازی کر رہی ہے کہ سارا زور جانوروں پر ہے۔
اگر یہ قربانی سے روکنے ہی کی کوئی سازش ہے تو مسلمان ایسی سازشوں کا شکار نہ کبھی پہلے ہوئے ہیں اور نہ ہی آئندہ ہوں گے۔ ان شاء اللہ!
اللہ ہم سب کو سنت ابراہیمی پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!
(مولانامحمد جہان یعقوب، انچارج شعبہ تخصص فی التفسیر، جامعہ بنوریہ عالمیہ، سائٹ، کراچی)

Comments

مولانا محمد جہان یعقوب

Click here to post a comment