گذشتہ دنوں ایک جگہ بات چیت کے دوران ایک صاحب کہنے لگے فلاں عالم نے "مکروا و مکر اللہ" کا ترجمہ بہت گستاخانہ انداز میں کیا ہے جبکہ ہمارے بزرگ نے اس کا ترجمہ بہت مناسب کیا ہے۔
میں نے پوچھا مجھے دونوں ترجمے سنایئے:
کہنے لگے فلاں عالم نے ترجمہ کیا ہے: "انہوں نے مکر کیا، اور اللہ نے بھی مکر کیا۔"
جبکہ ہمارے بزرگ نے اس کا بہت باادب اور مناسب ترجمہ کیا ہے: "انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے تدبیر کی۔"
میں نے کہا: جناب! دونوں ترجمے درست ہیں! پہلے والا اسلیئے جب اللہ نے خود اپنے لیئے مکر کا صیغہ استعمال کیا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اس کو بدلنے والے؟ اللہ خود کفار اور اپنے لیئے مکر کا ایک ہی صیغہ استعمال کر رہا ہے تو ہم اس کو بدل نہیں سکتے۔
یہ سیاق و سباق یا لفظ کے استعمال کا مفھوم بتائے گا کہ ہمیں یہاں کیا مراد لینا ہے۔
کہنے لگے سمجھا نہیں!
میں نے کہا: "سورہ احزاب کی آیۃ تو معلوم ہوگی کہ اللہ اور اس کے فرشتے حضور علیہ السلام پر درود و سلام بھیجتے ہیں تو اے مسلمانو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو!"
کہنے لگے جی معلوم ہے!
میں نے کہا درود پڑھ کر سنایئے: کہنے لگے اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا رک جائیں! کیا اللہ یہ درود پڑھ سکتا ہے؟ اللھم صل علی محمد (اے اللہ درود بھیج محمد پر)؟
کہنے لگے ظاہر ہے نہیں!
میں نے کہا کہ پھر آپ نے وہاں درود کا ترجمہ الگ لفظ سے کیوں نہیں کیا؟
ظاہر ہے اللہ کا درود الگ ہے، فرشتوں کا الگ اور ہم بندوں کا الگ۔
اسی طرح مکر کا ترجمہ خفیہ تدبیر کا ہے۔
اب ظاہر ہے کفار کی خفیہ تدبیر کی نوعیت الگ ہے اور اللہ کی الگ۔ اور تدبیر غالب اللہ ہی کی ہونی ہے۔
اب دوسری طرف آئیں
آپ کے بزرگ نے جو ترجمہ کیا ہے وہ اسلیئے درست ہے کہ ہماری عوام اتنا شعور اور علم حاصل کرلینا اپنے لیئے بوجھ سمجھتی ہے، اسلیئے وہ صرف ترجمہ پڑھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں بلکہ اکثر کو تو یہ بھی نصیب نہیں ہوتا لہذا انہوں نے اس کا ترجمہ تدبیر ہی سے کردیا۔
میں نے آگے کہا: جناب سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے رنجشیں نہ پالیں، تحقیق کریں تو چیزیں کھل جائینگی اور آپ کو معلوم ہوگا کہ مسئلے اتنے بڑے ہیں نہیں جتنے بنا لئے گئے۔
از
قاضی محمد حارث
تبصرہ لکھیے