ہوم << مسئلہ مذہب کی شناخت کا - ابومحمد مصعب

مسئلہ مذہب کی شناخت کا - ابومحمد مصعب

ابومصعب جب شناختی کارڈ اور پاسپورٹ فارمز میں مذہب کا خانہ بنایا گیا تھا تو اس پر کافی شور اٹھا تھا۔ ہمارے لبرل بھائیوں کا موقف تھا کہ چونکہ مذہب، فرد کا نجی معاملہ ہوتا ہے لہٰذا اس کے بارے میں ریاست کون ہوتی ہے کسی سے اس کا مذہب معلوم کرنے والی؟
یہی بحث کچھ ماہ قبل بھی چھیڑی گئی تھی کہ کیا ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی فرد یا گروہ کے ایمان و عقیدے کا تعین کرے؟ جب کہ ایمان کا تعلق تو انسان کے باطن کے ساتھ ہوتا ہے!
اس مختصر عرصہ میں تیسری بار یہ بحث اب پھر کسی اور انداز میں چھڑ چکی ہے جس میں محترم غامدی صاحب کے اصولِ تکفیر پر گفتگو کی جا رہی ہے۔ الحمدللہ ہمارے دوستوں نے دلیل کے ساتھ اور نہایت شائستگی سے اس موضوع پر اپنی بات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سلسلہ میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ مسئلہ رئویت ہلال سے لے کر مسئلہ جہاد تک جتنے بھی اختلافات امت کے اندر پیدا ہوئے ہیں، ان کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ ریاست نے مذہب کو ’’ڈس اون‘‘ کرکے عوام اور افراد کے ہاتھوں میں دے دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اس کے ساتھ کھلواڑ کریں۔ لہٰذا اب حالت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہر گروہ کے پاس اپنی بینڈ اپنا باجا ہے اور وہ دوسرے کو برداشت کرنا تو درکنار، خود سے مختلف رائے سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست نے جس جس چیز کو ’’اون‘‘ کیا وہ سنور گئی اور انتشار سے بچ گئی۔ عرب ملکوں میں ہر جگہ اذان اور نماز کے لیے اوقاف کی جانب سے وقت مقرر ہیں اور پورے سال کا کیلنڈر پہلے سے بنا دیا گیا ہے۔ مسجدوں میں مواقیت الصلوٰۃ کی جو ڈیجیٹل گھڑیاں نصب ہیں وہ براہ راست اوقاف کے ساتھ لنک ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے بالکل ایک ہی وقت میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے اور کہیں بھی ایک منٹ تک کا فرق نہیں آتا۔
اسی طرح پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم ہی کو لے لیں۔ حکومت نے اس معاملہ کو ’’اون‘‘ کیا، اس لیے تقریباََ ہر بچے تک یہ قطرے پہنچ جاتے ہیں۔ حکومت اعلان کرتی ہے کہ ہر فرد نے اپنی فون سم کی تصدیق کروانی ہے، یہ کام ہو کر رہتا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا کہ اب پاؤ، سیر چھٹانک نہیں بلکی اعشاری نظام چلے گا، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ جس چیز کو ریاست اور حکومت اون کرلے وہ محفوظ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس جس چیز کو ریاست یوں ہی عوام کے اوپر چھوڑ دے، عوام اس میں کا حشر نشر کردیا کرتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد اب یہ بات سمجھنا کچھ آسان ہوگیا کہ لوگوں کے مذہبی معاملات سے ریاست خود کو الگ نہیں رکھ سکتی۔ یہ ریاست کا نہ صرف حق، بلکہ فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں سے ان کا مذہب پوچھے بلکہ فساد اور انتشار کی سرکوبی کے لیے، لوگوں کو ان کے عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر پہچان بھی دے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ آج کے جدید معاشرے چند صدیاں قبل کے معاشروں سے بلکل مختلف ہیں۔ ایک معاشرے میں رہنے والے افراد کے ایک دوسرے کے ساتھ سوشل کانٹریکٹ بنتے ہیں، شادی بیاہ اور رشتہ داریاں وجود میں آتی ہیں، نسب کا تعین اور نسلوں کے آغاز کی بنیادیں ڈلتی ہیں۔ بھلا ایسے میں ایک نظریاتی ملک کس طرح افراد کی مذہبی شناخت کے تعین کی ذمہ داری سے خود کو الگ رکھ سکتا ہے؟ ہاں ان ملکوں کے لیے واقعی یہ کوئی مسئلہ نہیں جہاں بچہ کی پیدائش کے بعد قطار میں لگ کر لوگ ڈین اے ٹیسٹ کرواتے ہیں تاکہ بچہ کے نسب کا تعین ہوسکے۔

Comments

Click here to post a comment