ہوم << مرزا قادیانی کو مسلم منوانا، جاوید غامدی صاحب کی سعیِ نامشکور - حامد کمال الدین

مرزا قادیانی کو مسلم منوانا، جاوید غامدی صاحب کی سعیِ نامشکور - حامد کمال الدین

حامد کمال پاکستان میں قادیانی ٹولے کو غیر مسلم ڈیکلیئر کرنے کا دن آج گرم جوشی سے منایا جا رہا ہے۔ اتفاق سے آج ہی ’دلیل‘ پر جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ مضمون نظر سے گزرا۔ اس موضوع پر باقی سب نزاعات کو ہم کسی اور وقت کےلیے اٹھا رکھتے ہیں اور مضمون کے آخری جملوں پر چلے جاتے ہیں:
”اُن کے نظریات و عقائد میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔“
اس بات کا ثبوت دینے پر ہم وقت ضائع نہیں کریں گے کہ صاحبِ مضمون مرزا قادیانی ایسے جھوٹے مدعیِ نبوت کو اپنے انھی جملوں کا مصداق سمجھتے ہیں جو اوپر کے اس پیرا میں بیان ہوئے۔ یعنی ان کے خیال میں مرزا ایسے کسی مدعیِ نبوت کی بات کو آپ غلط کہہ لیں، گمراہی قرار دے لیں، لیکن یہ فیصلہ کر دینا کہ وہ مسلمان نہیں رہا یا اُسے مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اس کا حق ان کی نظر میں کسی کو بھی حاصل نہیں۔ غرض اسے آپ کو مسلمان ہی ماننا ہے اور مسلمان والا ہی سب پیار محبت اور سب حقوق مرزا قادیانی یا اس جیسے کسی بھی مدعیِ نبوت کو دینے کے آپ خدا کی جانب سے پابند ہیں، از روئے قول جاوید احمد صاحب غامدی۔ قادیانی کو مسلمان منوانے کا یہ مضمون دیگر متعدد مقامات پر یہ حضرت صراحت سے ادا کر چکے ہیں۔ پھر بھی اگر یہ فرمائیں، یا ان کے دفاع میں متحرک حضرات ہی ہمیں اس پر جھٹلا دیں اور بس اتنا کہہ دیں کہ جاوید احمد غامدی صاحب بقیہ امت کی طرح مرزا غلام قادیانی ایسے مدعیانِ نبوت کو دین اسلام اور جماعتِ اسلام سے خارج کہنے کا ہی مذہب رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے غلط ہونے پر نہ صرف خوشی ہوگی بلکہ ان سے معذرت کے ساتھ ساتھ ہم قاری سے خود کہیں گے کہ ہمارا یہ تمام مضمون بےمحل، غیرضروری اور مسئلہ سے غیرمتعلقہ ہے لہٰذا وہ اس کو پڑھنے کی زحمت ہرگز مت کرے۔
قادیانی اور اس کو نبی ماننے والوں کو ایک مسلم گروہ منوانا اور اس ٹولے کو ملت سے خارج ٹھہرانے والوں کو (جن میں واضح طور پر پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بھی آتی ہےاور یہاں کے عام علماء و عوام المسلمین بھی) غلط اور حق سے ہٹے ہوئے ٹھہرانا، یہ جاوید احمد غامدی صاحب کی اس سعیِ نامشکور کا وہ اصل مضمون ہے جو ان کے عوامی بیانات میں قدرے تلمیح کے ساتھ آتا ہے تو ان کے فکری مباحث میں کسی لگی لپٹی کے بغیر۔ یہ ہوئی صاحبِ مضمون کے موقف کی تقریر۔ اب ہم اس پر نقد کی طرف آتے ہیں۔


’کافر‘ کی جگہ ’غیرمسلم‘ کا لفظ جاری کر لینے کے بعد اصولاً صاحبِ مضمون کا گزارہ ہو جانا چاہیے تھا کہ یہ اصطلاح ہی اب ایک غیرمنصوص ہے لہٰذا اس کو لاگو کرنے کا حق اللہ نے کس کو دیا ہے اور کس کو نہیں دیا ہے، یہ سوال ہی سرے سے غیرمتعلقہ ہو جاتا ہے۔ بھائی غیرمسلم کہا ہے کافر تھوڑی کہا ہے! یہاں ’’سنت‘‘ ایسی ایک منصوص اصطلاح کو آپ ’ارتقاء‘ کی دھار پر رکھ سکتے (اس کے مفہوم کے اندر مسلسل developments لاتے چلے جا سکتے) ہیں اور اسے ان معانی پر باقاعدہ محصور کر سکتے ہیں جو ابو ہریرہؓ و ابن عمرؓ و ابن عباسؓ وغیرھمؓ کے روزمرہ استعمال ’’سنت‘‘ سے سراسر ہٹ کر ہیں (یعنی اتنی آزادی ہے) تو ’غیرمسلم‘ ایسی ایک غیرمنصوص اصطلاح پر ایسی سختی کیوں؟ آپ اس سے اپنی مراد لیں (اگر کوئی خاص مراد ہے) اور امت اس سے وہ مراد لے جو اس کے ہاں چلتی ہے، آخر مسئلہ کیا ہے؟
لیکن اس مسئلہ کا یہ ایک ’اصولی حل‘ نکال لینے کے بعد بھی، یعنی ’’کافر‘‘ کے بجائے ’غیرمسلم‘ کی اصطلاح چلا دینے کے باوجود، اندازہ کر لیجیے کہ صاحبِ مضمون کی تسلی نہ ہوئی اور محمدﷺ کے مرتبۂ نبوت پر جا بیٹھنے والے ایک شخص کےلیے یہ ’غیرمسلم‘ ایسا ایک نسبتاً ہلکا لفظ بھی ان کی برداشت سے باہر ہے!
یہاں ہم لفظی بحثوں میں نہیں پڑیں گے لہٰذا ’غیر مسلم‘ کے لفظ ہی کو لے کر چلتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھائیں گے۔ اس صراحت کے ساتھ کہ اس (غیرمسلم) کی تعریف کا حق صرف ان کو نہیں بلکہ اس امت اور اس کے علماء کو بھی ہے جسے ان کے یہاں بےتحاشا غلط ٹھہرایا جاتا ہے (نیز اس بحث میں بھی فی الحال نہیں جائیں گے کہ ایک غیرمنصوص لفظ کی کسی مخصوص تعریف اور اس کے لوازم کا سب کو پابند کرنے کا حق بھی خدا نے کسی کو نہیں دیا ہے، یہ سب باتیں کسی اور وقت)۔


صاحبِ مضمون کے نزدیک ’’مسلم‘‘ اگر کوئی لایعنی چیز ہے پھر تو مسلم اور غیرمسلم کا یہ فرق کرنا واقعتاً غیرضروری ہے۔ اس صورت میں کوئی اسلام کا دعویٰ کر لینے کے بعد جیسے مرضی نبی کو جھٹلائے، قرآن کو جھٹلائے، یہاں تک کہ اپنے آپ کو نبی کیوں نہ کہہ دے، یا حتیٰ کہ اپنے آپ کو خدا کیوں نہ کہہ دے، ہم صاحبِ مضمون کی پیروی میں کہیں گے یہ شخص بدستور ’’مسلم‘‘ ہے اور جو شخص ایسے آدمی کے ’’مسلم‘‘ ہونے پر سوال اٹھائے خود اُسی کے پیچھے ہم میڈیا کی لٹھ لے کر بھی پڑ جائیں گے۔ تاہم اگر ’’مسلم‘‘ کا دنیا میں کوئی معنیٰ ہے. اگر یہ لفظ کسی انسان کےلیے بولنے سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ شخص ہمارے علم میں اسلام کے بنیادی عقائد کو ماننے والا ہے (عملی کوتاہی کا مسئلہ دوسرا ہے) تو اس کے مقابلے پر کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہوئے جو اسلام کے کسی بنیادی عقیدہ کا منکر ہو، ہم یہ کہنے کا بجا طور پر حق رکھیں گے کہ وہ چیز جس کو ہم ’’مسلم‘‘ کہتے ہیں، یہ وہ نہیں ہے۔ اس کےلیے ہی ہم نے لغت میں ’غیرمسلم‘ کا لفظ وضع کیا ہے (’کافر‘ کی بحث ہم کر ہی نہیں رہے)۔ بتائیے اس میں کیا مسئلہ ہے؟
اور یہ بات بہت واضح ہے کہ جن علماء یا جس دستور ساز اسمبلی نے قادیانیوں کو ’غیرمسلم‘ کہا ہے وہ ’’ظاہر‘‘ کے احکام میں رہتے ہوئے کہا ہے۔’’ظاہر کے احکام‘‘: یعنی فلاں شخص ہمارے علم میں اسلام کے بنیادی عقائد کو ماننے والا (یعنی مسلم) ہے اور فلاں شخص ہمارے علم میں اسلام کے بنیادی عقائد کو نہ ماننے والا (یعنی غیر مسلم) ہے۔ ہاں آپ پریشان ہوتے اگر کسی نے یہ دعویٰ کر دیا ہوتا کہ:
o وہ اس شخص کے باطن پر مطلع ہوتے ہوئے اس پر کوئی (باطنی) حکم لگا رہا ہے، جو کہ واقعتاً خدا کے ہی لگانے کا ہو سکتا ہے نہ کہ دنیا میں کسی قاضی یا مفتی کے لگانے کا۔
o یا یہ دعویٰ کر دیا ہوتا کہ وہ اس شخص پر وہ آخرت والا حکم لگا رہا ہے جس کا فیصلہ قیامت کے روز خدا کو کرنا ہے نہ کہ دنیا کے کسی قاضی یا جج کو۔
جبکہ ایسا کوئی دعویٰ یہاں کسی نے نہیں کیا ہے۔
یہاں تو صاف کہا جا رہا ہے کہ یہ وہ حکم ہے جو ہم دنیا میں ظاہری طور پر لگا رہے ہیں:
o محمدﷺ کے لائے ہوئے عقائد کو ماننے والے ایک شخص کا ظاہر دیکھ کر ہم اس کو اپنے (دنیوی) ریفرنس کےلیے’’مسلم‘‘ (محمدﷺ کی باتوں کو ماننے والا) کہہ رہے ہیں۔
o جبکہ محمدﷺ کے لائے ہوئے عقائد کو نہ ماننے والے ایک شخص کا ظاہر دیکھ کر ہم اس کو اپنے (دنیوی) ریفرنس کےلیے’’غیرمسلم‘‘ (محمدﷺ کی باتوں کو نہ ماننے والا) کہہ رہے ہیں۔
نہ ہم اس کے باطن میں گھسے اور نہ اس کے اخروی معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ یہ دونوں معاملے ہم نے خدا پر چھوڑ کر رکھے۔ اور یہ وہ دونوں معاملے ہیں جو خود دورِ نبوت میں خدا پر چھوڑ رکھے جاتے تھے۔ (ہر کسی کا ’غیرمسلم‘ یا ہر کسی کا ’مسلم‘ ہونا نص کے ذریعے نہیں بتایا جاتا تھا)۔ خود دورِ نبوت میں مسلم اور ’غیرمسلم‘ سے متعلق محض لوگوں کا ظاہر دیکھ کر اس پر حکم لگتا تھا۔ (دورِ نبوت میں بھی وہ چند ہی لوگ آپ کو ملتے ہیں جن کا بالتعیین کافر ہونا نص کے ذریعے انسانوں کو معلوم کروایا گیا تھا جیسے ابولہب، ابوجہل اور قتلائے بدر وغیرہ کا خدا کے ہاں کافر ہونا۔ اسی طرح دورِ نبوت میں وہ بھی چند ہی لوگ آپ کو ملتے ہیں جن کا بالتعیین مومن ہونا نص کے ذریعے انسانوں کو معلوم کروایا گیا تھا جیسے عشرہ مبشرہ وغیرہ کا خدا کے ہاں مومن ہونا)۔ باقی عام لوگوں پر دورِ نبوت میں بھی ظاہری کرائٹیریا criterion کی بنیاد پر محض ایک ظاہری/دنیوی حکم لگایا جاتا تھا جبکہ باطنی/اخروی حکم کو علّام الغیوب پر چھوڑ رکھا جاتا تھا، ’’مسلم‘‘ کے معاملے میں بھی اور ’غیرمسلم‘ کے معاملہ میں بھی۔ چنانچہ صحابہ کو بھی دنیا میں سراسر ایک ظاہری حکم لگانا ہوتا تھا، اس کرائٹیریا کی بنیاد پر جو دنیوی احکام میں ’مومن‘ اور ’غیرمومن‘ کے مابین تمییز کرتی ہے: [pullquote]فَامْتَحِنُوھنَّ اللَّہ أَعْلَمُ بِايمَانِھنَّ فَانْ عَلِمْتُمُوھنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوھنَّ الَى الْكُفَّارِ لَا ھنَّ حِلٌّ لَھمْ وَلَا ھمْ يَحِلُّونَ لَھنَّ (الممتحنہ:10)۔[/pullquote] ’’تو تم ان (ہجرت کر آنے والی عورتوں) کی پرکھ کرو۔ اللہ بہتر جانتا ہے ان کے مومن ہونے کو۔ ہاں اگر تم ان کو مومن جانو تو انہیں کافروں کو مت لوٹاؤ، نہ وہ اِن کےلیے حلال اور نہ یہ اُن کےلیے‘‘۔ موسیٰ علیہ السلام کے (دورِ نبوت) میں آل فرعون میں سے شمار ہوتا رہنے والا ایک آدمی بڑی دیر بعد انسانوں کے سامنے اپنا پردہ فاش کرتا ہے۔ یہ تمام عرصہ جب وہ ظاہری احکام میں ’آل فرعون‘ گنا جا رہا تھا، باطن میں مومن چلا آ رہا تھا۔ اس کا مومن ہونا انسانوں پر اس دوران چھپا رہنے کی صراحت خود قرآن کرتا ہے: [pullquote]وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ ايمَانَہ سورۃ غافر 28[/pullquote] بولا ایک مرد مومن آل فرعون میں سے جو اپنے مومن ہونے کو چھپائے ہوئے تھا)۔ پس دورِ نبوت میں بھی یہ ممکن ضرور ہے کہ ظاہری کرائٹیریا کو لاگو کرتے ہوئے ایک شخص کو ظاہری/دنیوی احکام میں آپ غیر مسلم سمجھتے رہے درحالیکہ خدا کے ہاں باطنی/اخروی احکام میں وہ کچھ اور نکلے۔ اور عین اسی طرح یہ ممکن ہے کہ ظاہری کرائٹیریا کو لاگو کرتے ہوئے ایک شخص کو ظاہری/دنیوی احکام میں آپ مسلم سمجھتے رہے درحالیکہ خدا کے ہاں باطنی/اخروی احکام میں وہ کچھ اور نکلے۔ یعنی کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے سے متعلق دورِنبوت میں بھی انسانوں کی قضاء خدا کی قضاء سے مختلف ہو سکتی ہے۔ دنیوی احکام میں صحابہ کے پاس بھی اگر کچھ تھا تو مسلم اور غیرمسلم کے مابین فرق کرنے والے اصولوں پر مبنی محض ایک ظاہری کرائٹیریا criterion تھا۔ جبکہ اس کی بابت ایک باطنی و اخروی فیصلہ خود صحابہ کی نظر میں ایک اور چیز تھی اور جو کہ خدا کے ساتھ متعلق تھی، کوئی اس میں دخل دیتا تھا اور نہ اس کو جان رکھنے کا دعویٰ کرتا تھا اور نہ اس کو جان رکھنے پر انسانوں پر لگنے والے دنیوی احکام کو موقوف ٹھہراتا تھا۔ ان دونوں (کسی شخص کے ایمان اور کفر کے متعلق انسانوں کی قضاء، اور کسی شخص کے ایمان اور کفر کے متعلق خدا کی قضاء) کا ایک یعنی identical ہونا خود صحابہ کے ہاں ضروری نہیں تھا۔
اپنے ایک دوسرے مضمون میں ہم ابن تیمیہ وغیرہ سے بھی یہ نقل کر چکے ہیں کہ صاحبِ مضمون ایسے حضرات کے اٹھائے ہوئے اشکالات اصل میں اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب یہ دنیوی اور اخروی احکام کو باہم خلط کر جاتے ہیں۔ یہاں واقعتاً ڈر جانے کی بات آتی ہے کہ کوئی شخص کسی کے جنت یا جہنم میں جانے کا فیصلہ آخر کیسے کر سکتا ہے؟ کچھ بھی ہو ایک شخص کے مومن اور کافر ہونے کا حقیقی فیصلہ کرنا علام الغیوب کا کام ہے۔ یہ بالکل برحق بات ہے۔ اس معنیٰ میں اللہ کا شکر ہے کہ کوئی مسلمان عالم یا قاضی کسی کو ’مومن‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے اور نہ ’کافر‘ ہونے کا، سوائے ایسے معدودے چند اشخاص کے حق میں جن کا خدا کے ہاں کافر اور جہنمی ہونا ہمیں وحی سے معلوم ہو گیا جیسے فرعون اور ابو لہب وغیرہ، یا ایسے معدودے چند اشخاص جن کا خدا کے ہاں مومن اور جنتی ہونا ہمیں وحی سے معلوم ہو گیا جیسے ابو بکر و عمر وعثمان و علی وغیرہ۔ باقی کسی کا معاملہ اس معنیٰ میں یہاں کی کسی قضاء اور کسی مقننہ نے اپنے ہاتھ میں کبھی نہیں لیا، نہ وہ لے سکتی ہے، نہ وہ اپنے آپ کو اس کا مجاز کہتی ہے۔ یہاں ہمارے پاس صرف ایک ظاہری دنیوی تقسیم ہے اور اس کا ایک کرائٹیریا ہے: کون ہمارے علم میں محمدﷺ کے دیے ہوئے معلوم عقائد کو ماننے والا ہے، ایسے شخص کےلیے ہمارے پاس دنیوی identification کےلیے ’مسلم‘ کا لفظ ہے تاکہ ہم اس کو مسلمان کےلیے واجب محبت اور حقوق دینے میں کوتاہی نہ کر بیٹھیں، اس کی آخرت کا معاملہ خدا کے ساتھ۔ اور کون ہمارے علم میں محمدﷺ کے دیے ہوئے معلوم عقائد یا ان میں سے کسی بات کا منکر ہو گیا ہے، ایسے شخص کےلیے ہمارے پاس دنیوی identification کےلیے’غیرمسلم‘ کا لفظ ہے تاکہ ہم اس کو مسلمان کےلیے واجب محبت اور حقوق دینے کے پابند نہ رہیں، اس کی آخرت کا معاملہ خدا کے ساتھ۔ بتائیے جب ہم دنیوی احکام کو اخروی سے اور ظاہری احکام کو باطنی سے خلط نہیں کرتے تو یہاں کسی کو کیا مسئلہ ہے؟
پس کل سوال یہ ہے کہ ’’مسلم‘‘ یہاں کے روزمرہ استعمال میں آپ کے نزدیک کوئی بامعنیٰ لفظ ہے یا کوئی لایعنی لفظ؟ اور اگر یہ کوئی بامعنیٰ لفظ ہے تو اس کا ہمارے نزدیک کیا مطلب ہے؟ اسی کی روشنی میں اس کے ’غیر‘ کا تعین خودبخود ہو جائےگا۔ ہم کہتے ہیں ’’مسلم‘‘ کا مطلب ہے محمدﷺ کے لائے ہوئے اسلام کے بنیادی عقائد کو ماننے والا۔ اگر ہمیں ’’مسلم‘‘ کا یہ معنیٰ کرنے کا حق ہے تو ’عقلِ عام‘ کی رُو سے ہمیں خودبخود یہ حق ہوگا کہ اس لفظ کو اس کے معنیٰ کے ساتھ سلباً اور ایجاباً ایک شخص پر لاگو کریں۔ جہاں ہمیں یہ معنیٰ نظر آئے وہاں ہم اس کا ایجاباً اطلاق کریں اور جہاں یہ معنیٰ نظر نہ آئے وہاں سلباً اس کا اطلاق کریں، بغیر اس کے کہ کسی کے باطنی یا اخروی معاملے کو ذرہ بھر ہاتھ میں لیں کیونکہ وہ ہمارا دائرہ ہی نہیں۔
’’بینا‘‘ کا دنیا میں اگر کوئی مطلب ہے اور وہ یہ کہ یہ لفظ ہم اس شخص کےلیے بولیں گے جو دیکھ سکتا ہو تو ایک دیکھ نہ سکنے والا شخص خودبخود ’’نابینا‘‘ قرار پائے گا، اس کےلیے کسی کو یہ کہنے کا حق ہونے یا نہ ہونے کی بحث فضول ہے۔ الّا یہ کہ ’’بینا‘‘ کا کوئی مطلب ہی انسانوں کی روزمرہ زندگی میں نہ رہنے دینا آپ کا مقصود ہو۔ ہاں اس صورت میں ’’بینا‘‘ کا اطلاق ایک دیکھ نہ سکنے والے شخص پر بھی اُسی قدر ہو گا جتنا کہ ایک دیکھ سکنے والے شخص پر! یقین مانیے ’’بینا‘‘ کا تصور دنیا سے ختم کر دینے کےلیے یہ ایک ریسیپی recipe ہے۔
یہ عین وہ بات ہے جو کویت کے ایک عالم شیخ حامد العلی کہہ چکے ہیں: ملحد گلوبلائزیشن کا مقصد اس حوالہ سے اصل میں یہ ہے کہ کفر اور اسلام کے مابین فرق کرنے کا تصور ہی دنیا کے اندر اب مٹا دیا جائے۔ وہ فصیل ہی سرے سے یہاں مسمار کر دی جائے جو دو ملتوں کے مابین سماجی طور پر حائل چلی آئی ہے۔ اس تصور ہی کو ختم کر دیا جائے کہ ’’مسلمان‘‘ ایک مخصوص ہیئت کا نام ہے اور وہ یہ کہ کم از کم نظریاتی سطح پر ایک آدمی محمدﷺ کی لائے ہوئے معلوم عقائد کو ماننے والا ہو۔ ملحد گلوبلائزیشن کو شدت کے ساتھ آج ایسی ’اسلامی‘ تعبیروں کی ضرورت ہے جو لوگوں کو باور کرائیں کہ ایک شخص محمدﷺ کے لائے ہوئے معلوم عقائد کو ٹھکرا کر بھی خیر سے مسلمان ہی ہوتا ہے اور اس کو مسلمان ہی کہنا چاہیے۔ جہالت اور لاعلمی عام ہونے کے اس زمانے میں تو خاص طور پر یہ کچھ سماجی فصلیں ہی ہو سکتی تھیں جو ملتوں کے اس فرق کو ایک جیتےجاگتے فرق کے طور پر قائم رکھیں۔ البتہ ان سماجی فصیلوں کو گرا دینے کے بعد معاملے کا آرپار ہونا جس قدر یقینی ہےاس کی پیش گوئی ہر شخص کر سکتا ہے۔
*نوٹ:
سورۃ الممتحنۃ کی اوپر گزر چکی آیت [pullquote]فَانْ عَلِمْتُمُوھنَّ مُؤْمِنَاتٍ[/pullquote] ان نقاط پر بہت واضح ہے:
1. کسی کو مسلم یا غیرمسلم قرار دینے کے متعلق صحابہ کو صرف کچھ اصولوں پر مبنی ظاہری کرائیٹیریا حاصل ہے۔ (فَامْتَحِنُوھنَّ)
2. اس ظاہری کرائٹیریا کی روشنی میں وہ کسی ایمان کے دعویدار [pullquote](اِذَا جَاءَکُمُ المُؤمِنَاتُ مُھَاجِراتٍ)[/pullquote] کو اپنے علم کی حد تک فی الواقع مسلم پائیں تو مسلم ڈیکلیئر کریں گے [pullquote](فَانْ عَلِمْتُمُوھنَّ مُؤْمِنَاتٍ)۔[/pullquote] اور اگر اس کرائٹریا کی روشنی میں اس کو مسلم نہ پائیں تو ظاہر ہے غیرمسلم بھی ڈیکلیئر کر سکیں گے۔
3. ہر دو صورت میں صحابہ کی یہ قضاء جس کا ان کو حق دیا گیا ہے، اُس حقیقی قضاء سے مختلف ہے جو اس شخص کے متعلق خدا کے علم میں ہے [pullquote](اللَّہ اعْلَمُ بِايمَانِھنَّ)۔[/pullquote] پس یہ دو الگ الگ چیزیں ہوئیں۔ یعنی ایک شخص کے مومن ہونے یا نہ ہونے کی بابت علام الغیوب کا اپنا جو فیصلہ ہے وہ صحابہ کو بھی دستیاب کروایا نہیں گیا ہے۔ (یہاں سے یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا کہ صحابہ نے جس کسی کو بالتعیین غیرمسلم ڈیکلیئر کیا وہ اس کی بابت خدائی فیصلہ بذریعہ وحی معلوم ہونے کی بنیاد پر کیا)۔ صحابہ کی ظاہری قضاء کسی کو مسلم یا غیرمسلم کہنے میں غلط بھی ہو سکتی ہے مگر اپنی اس صوابدید کو پوری دیانت کے ساتھ استعمال کرنے پر وہ کم از کم اکہرے اجر کے مستحق ہیں اور ان کی اِس قضاء کا اطلاق صرف دنیوی احکام پر اور دنیوی احکام کی حد تک ہے۔
واللہ اعلم واصوب واحکم۔

Comments

Click here to post a comment