انسانی تاریخ میں عہد فاروقی کو جو مقام حاصل ہے وہ صبح قیامت تک قائم رہےگا۔ امیرالمومنین حضرت عمرفاروق ؓ اپنے دورخلافت میں رعایا کے اس قدر خیرخواہ تھے کہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ اگر میری سلطنت میں کوئی کتا دریائے فرات کے کنارے پیاسا مر گیا تو میں اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہوں گا۔ آپؓ نے اپنے دور خلافت میں بہت سے ادارے اور محکمے بنائے، اور تمام محکموں کے منتظمین کو احکامات صادر فرمائے کہ وہ عوام کے خدمت گزار بن کر کام کریں اور جو کوئی ایسا نہ کرتا، اس کی سخت سرزنش کرتے۔ ان کے عہد خلافت میں خوشیوں کی ساعتیں بھی یوں گزر گئیں جیسے خوشی کی بات نہ ہو۔ عہد حاضر میں ہم اس دور کا تصور ہی کر تے ہیں کہ کاش آج کے حکمران بھی ہمارے حال سے باخبر رہتے اور ہمارے درد کی دوا بنتے۔
پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا، مگر مقتدر طبقات نے اپنے مفادات کے لیے اسلام کے سنہری اصول فراموش کر دیے اور خود قومی وسائل پر قبضہ کرلیا جس کے نتیجے میں پاکستان زخموں سے چور ہوگیا اور اس کے عوام روز ایک نیا ستم سہنے پر مجبور ہوگئے۔ پاکستان اور اس کے بدنصیب عوام کو ہر روز کسی نہ کسی اندوہناک سانحے یا المناک حادثہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ میرے مادر وطن کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ جس طرف دیکھتی ہوں پریشانی، بےچینی اور بےیقینی کا سماں ہے. حکمرانوں کے سینوں میں شاید دل نہیں پتھر دھڑکتے ہیں۔ ہر طرف ایک نیا امتحان اور ایک طوفان ہے۔ ملک میں دہشت گردی، خود کش حملے، لوڈشیڈنگ، بجلی و گیس کی بندش، بےروزگاری، غر بت، مہنگائی، بدعنوانی، تعلیم کی کمی، صحت کے مسائل نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج ہم کس حال میں جی رہے ہیں۔ ہمارا تو درد زباں پر بیاں نہیں ہو سکتا۔ کوئی سننے کو تیار نہیں، ہمارے منتخب کردہ نمائندے اقتدار میں آکر عوام کو بھول جا تے ہیں۔ پھر وہ ہمارا درد محسوس کرتے ہیں نہ کوئی اشک شوئی کرتا ہے اور نہ انہیں ہماری آواز سنائی دیتی ہے۔
ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں امیر طبقات امیر سے امیر تر، اور بے چارے غریب سے غریب تر ہوتے جا ر ہے ہیں۔ عوام الناس ضروریا ت زندگی کو تر س رہی ہے، ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ مہنگائی کا طوفان تھم نہیں رہا، ضروریات زندگی کی مصنوعی قلت اور ٹریڈرز کی من مانی سنگین مسائل کاسبب بن رہی ہے، مہنگائی کے اس بڑھتے ہوئے طوفان نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے،ب ھوک اور غربت سے تنگ آ کر لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ مہنگائی پر تو کنٹرول دور کی بات حکومت نے مہنگائی میں پچھلی حکومت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت سے سیاست بھی تجارت ہے، مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ حالات میں کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آتی، امیر تو اپنا گزر بسر کر لیتے ہیں جبکہ غریب عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق سے انہیں محروم کیا جا رہا ہے، ملک میں بجلی کی گھنٹوں تک غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے باعث عوام کا روزگار بری طرح سے متا ثر ہوا ہے، خاص طور پر محنت کش طبقات مشکلات کا شکار ہیں۔ ملک میں لوڈ شیڈنگ میں کمی کے بجا ئے ملک میں بجلی کا بحران دن بدن شدید ہوتا جا رہا ہے، فیکٹریاں اور کاروبار جو زیادہ تر بجلی کی مرہون منت ہیں، لوڈشیڈنگ کی بندش کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں، جس سے بےروزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے، اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بےروزگاری اور افلاس سے تنگ آکر لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ خو د کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
قوم کو روزانہ نوید سنائی جا تی ہے کہ بجلی کی پیداوار میں ہزاروں میگاواٹ اضافہ کے لیے معاہدہ کرلیا گیا ہے مگر لوڈشیڈنگ جوں کی توں ہے۔ بدامنی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، حکومت کی رٹ کمزور نظر آرہی ہے۔ اس جد ید دور میں بھی شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اور حصول تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ معاشرے میں عدل و انصاف، میرٹ کی با ا دستی، اور پرامن ماحول کا قیام تعلیم کے ساتھ ہے۔ تدریسی عمل تو متاثر ہو رہا ہے۔ جس ملک میں بجلی دستیاب نہیں وہاں بچوں کے ہا تھوں میں لیپ ٹاپ پکڑا نے کا کیا مقصد تھا۔ بہتر تو یہ تھا کہ لیپ ٹاپ کے بجائے غریب طلبہ کے وظائف مقرر کیے جاتے تاکہ وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے اور مستقبل میں ملک و قوم کی خدمت کرتے۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیم اور صحت کے شعبہ جات کی مزید بہتری کے لیے دور رس اقدامات کرے۔ نظام تعلیم میں اسلامی اقدار کے مطابق کچھ تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔ بہتر تعلیمی نظام رائج کیا جا ئے۔ نئی نسل کو جدید تعلیم کے ذریعے ہنرمند اور معاشرے کا بے مثال شہری بنانا حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست کیوں نہیں ہے۔ اس کے لیے بہتر ین حکمت عملیاں بنانا ہوں گی۔ اس وقت ملک میں بہت سی پسماندہ آبادیاں ایسی ہیں جہاں کوئی مرکز صحت موجود نہیں ہے۔ ڈسپنسریاں نہ ہو نے کی وجہ سے لوگوں کو صحت کے بےشمار مسائل ہیں۔ صاف پانی کی دستیابی نہ ہونے کے باعث علاقے میں بہت ساری پیٹ کی بیماریاں ہیں۔ بروقت علاج نہ ہونے کے باعث لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔
یہ کیسی جمہوریت ہے کہ حکام عوام کی پرواہ کیے بغیر سکون کی نیند سو رہے ہیں۔ عوام فطری طورپر اپنے ہر درد کی دواکے لیے حکمرانوں کی طرف دیکھتے ہیں مگر حکومت کی ترجیحات عوامی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ جس کا درد بس اسی کا درد، باقی سب تماشائی، ایسا کیوں ہے۔ ملک میں کہیں بھی نظر دوڑائیں تو ہر طرف عوام مایوس اور بے بس ہیں۔ بھوک گلی کوچوں میں دندناتی پھرتی ہے، تھر میں ہرسال سینکڑوں بچے بلک بلک کر مر جاتے ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے بہتری کی کوششوں کے تمام دعووں کے باوجود صورتحال میں کو ئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی، وفاق اور سندھ حکومت کو تھر کا مسئلہ مستقل طور پر حل کرنا ہوگا۔ شاہراہوں کے بجائے شہریوں اور انہیں دستیاب سہولتوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔ پاکستان میں ہر گھڑی مفلس اور نادار پاکستانیوں کے لیے آزمائش اور ابتلاء کی گھڑی کیوں ہے۔ انسانیت کا جذبہ اور فرض کی ادائیگی کاجذبہ حکمرانوں کے ہاں ناپید ہے۔ اگرخلوص اور نیک نیتی کے ساتھ آپس میں سر جوڑے جائیں تومسائل کا پائیدار حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اگرسیاستدان انتخابی اتحاد بناسکتے ہیں توان کے درمیان انقلابی اتحاد کیوں نہیں بن سکتا۔ ریا ستی ادارے عوام کی شرکت کے بغیر اپنے فرائض درست طر یقے سے انجام نہیں دے سکتے۔ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے مقامی سطح پر مشاورت بےحد ضروری ہے تاکہ درست اور دوررس ترجیحات متعین کر کے قومی معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔ ٹیکس اداکرنے والے شہری ریاستی اداروں کی خدمات کے بلاامتیاز مستحق ہیں۔ ہرشہری ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون سے گریز کرنے کے بجائے ان کا دست و بازو بنے۔ سیاسی جماعتوں کو متفقہ قومی ایجنڈے پر متحد ہونا ہوگا، سوچ بچار کے بعد ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ارباب اقتدار اور ریاستی اداروں کے سربراہان کو اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاناہوں گی۔
تبصرہ لکھیے