اسے گئے ہوئے دس ماہ ہوگئے تھے اور آمنہ کو یوں لگ رہا تھا کہ کتنے سال ہو گئے ہیں اسے گئے ہوئے۔ ان دس ماہ میں کہاں کہاں اسے اس کی کمی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اس کو بھیجنے میں بھی اس کا اپنا ہاتھ تھا، اس لیے کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔
ولید ايک سپر سٹور چلاتا تھا اور اللہ کے فضل سے اچھی گزر بسر بھی ہو رہی تھی، دو چھوٹے بچے تھے، بوڑھے والد تھے اور ایک چھوٹا بھائی 14 سال کا اور بیوی آمنہ۔ سب کچھ بہت اچھے سے چل رہا تھا، سب خوش تھے، مطمئن تھے کہ ایسے میں آمنہ کی ایک سہیلی ایک دن بازار میں اس سے ٹکرا گئی۔ حال احوال پوچھا تو پتا چلا کہ اس کا میاں تو مسقط چلا گیا ہے اور ان کے تو وارے نیارے ہو چکے ہیں۔ بہت جلد وہ نیا بنگلہ بنوانے کا سوچ رہی ہے اور سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی خرید لی ہے۔ بچے بھی اچھے انگلش پرائیویٹ سکول ميں داخل ہو چکے ہیں اور زندگی پہلے سے بہت بہتر ہو چکی ہے۔
آمنہ گھر تو آ گئی لیکن اس کا ذہن اس کی باتوں میں اٹک گیا تھا۔ اگر ولید بھی باہر چلا جائے تو ہمارے لیے بھی کتنی آسانی ہو جائے۔ شام کو اس نے ولید کو اپنی سہیلی کے بارے ميں بتایا اور کہنے لگی کہ اگر تم بھی باہر چلے جاؤ تو ہماری زندگی کتنی اچھی ہو جائے نا۔ ولید نے ایک طرح سے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے چادر منہ پر تان لی اور کوئی جواب نہ ديا۔ دوسری شام آمنہ نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ولید نے اس کو سمجھانے کے اندز میں کہا ”دیکھو، اللہ تعالی کا فضل ہے، ہم بہت اچھے طریقے سے زندگی گزار رہے ہیں، کبھی فاقہ نہیں کیا، بچے اچھے سکول میں جاتے ہیں۔ میں تو مطمئن ہوں.“ مگر وہ آمنہ ہی کیا جو اپنی بات سے پیچھے ہٹ جائے۔ کھٹ سے بولی، ”دیکھو تمہارے پاس موٹرسائیکل ہے، دھوپ ہو یا بارش تم بچوں کو اس پر لے کر جاتے ہو۔ ابا جی کو ہسپتال لے کر جانا ہو تو بےچارے کتنی مشکل سے موٹرسائیکل پر بیٹھتے ہیں۔ سوچو اگر گاڑی ہو جائے گی تو کتنا آرام ہو جائے گا۔ بچوں کا سکول ہے تو اچھا مگرعام سا سکول ہے، کل جب بچے کسی اچھے اور بڑے سکول ميں جائیں گے تو ان کے مستقبل پر کتنا اچھا اثر پڑے گا؟ اس گھر میں بچے ہمارے کمرے میں سوتے ہیں، بڑا گھر ہوگا تو سب کا اپنا اپنا کمرہ ہو گا۔“ غرضیکہ آمنہ کے پاس ہر بات کی دلیل موجود تھی۔
آمنہ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ ولید نے ایک دن اسے کہا کہ ”دیکھو، میں چلا گیا تو تمہیں بہت مشکل ہوگی۔ بھائی چھوٹا ہے، بچے چھوٹے ہیں، ابا جی ضعیف ہیں۔ تم اکیلے کیسے سنبھالوگی سب کچھ؟“ میں کر لوں گی سب کچھ، اب اتنا بھی مشکل نہیں۔ بچوں کو سکول وین لگوا دوں گی، بھائی کے پاس تو سائیکل ہے نا، اور اگر ابا جی نے ہسپتال جانا ہوا تو ٹیکسی سے چلے جائیں گے، اب تم بہانے مت بنائو۔ اس کی ضد کے ہاتھوں ولید مجبور ہو گیا اور پتا نہیں کن کن جتنوں سے اس نے ادھر ادھر کہلوا کر مسقط کا ویزا حاصل کر لیا۔ سٹور اس نے کرائے پر چڑھا دیا۔ جس دن اس نے جانا تھا، آمنہ تو اڑتی پھرتی تھی۔ ولید نے اسے کہا کہ ابھی بھی سوچ لو، بہت مشکل ہو جائے گی لیکن وہ بھی اپنے نام کی ہی تھی، نہیں مانی اور وہ بجھے دل کے ساتھ چلا گیا۔
شام کو چھوٹے بيٹا گلی میں کھیلتے ہوئے گرگیا، سر پر چوٹ لگ گئی، خون نکلنے لگا، آمنہ کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے، ٹیکسی کروا کر ہسپتال پہنچی، مرہم پٹی کروائی، گھر واپس آئی تو شام کا کھانا بنا تھا، ابھی وہ بنا کر فارغ ہوئی تو ابا جی کی دوائی کا وقت ہو گیا۔ انہیں دوائی دی، کچھ دیر ان کی ٹانگیں دبائیں۔ پھر سارے دروازے بند کیے اور تھکن سے نڈھال بستر پر چلی آئی مگر نیند کوسوں دور تھی۔ ولید کمرے میں نہیں تھا تو اسے عجیب عجیب لگ رہا تھا۔ خیر کروٹیں بدلتے بدلتے نیند آ ہی گئی۔
فجر کے وقت ابا جی نے آواز دی تو اس سے تو ہلا بھی نہیں جا رہا تھا لیکن اٹھنا پڑا۔ نماز پڑھی تو دودھ والا آ گیا۔ وہ لے کر اندر رکھا، ابھی وہ گیا ہی تھا کہ کوڑا اٹھانے والے نے دستک دی، اسے کوڑا پکڑایا۔ اس سے پہلے یہ سب کام ولید کرتا تھا۔ اتنے میں ابا جی کو ناشتے اور چائے کی طلب ہوئی، فٹافٹ ان کے لیے ناشتہ اور چائے بنائی۔ اس کے بعد بچوں کو جگایا۔ بھاگم بھاگ ناشتہ بنایا، ان کے لنچ باکس بنائے، خود ناشتہ کرنے نہیں بیٹھی کیونکہ اسے آج ان کے ساتھ ہی نکلنا تھا تاکہ سکول وین کا بندوبست کر سکے۔ وہ سب کرتے کراتے 11 بجے واپسی ہوئی تو گھر الٹا پڑا تھا۔ بھوک بھی سخت لگی۔ چائے کے کپ کے ساتھ ایک رس کھایا اور گھر کو صاف کیا تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا. کیا پکایا جائے؟ پہلے تو ولید دکان سے کسی بچے کے ہاتھ گھر جو بھیج دیتا تھا، وہ وہی پکا لیتی تھی یا وہ صبح بتا جاتا تھا کہ آج یہ پکا لينا۔ خیر دال چاول بنا کر فارغ ہوئی تو بچے بھی آگئے۔ اباجی اور بچوں کو کھانا دیا، برتن دھوئے۔ اس دوران ولید کی اطلاع آ چکی تھی کہ وہ خیریت سے پہنچ چکا ہے۔ شام کو کمر سیدھی کرنے لیٹی ہی تھی کہ بیل بجی، ابا جی کے کوئی ملنے والے تھے۔ اب ان کے لیے چائے بنائی، گھر میں چائے کے ساتھ رکھنے کے لیے کچھ تھا نہیں، بچے مسجد گئے ہوئے تھے، ولید ہوتا تو بھاگ کر لا دیتا۔ لیٹنے کی فرصت تو نہ ملی لیکن شام سر پر کھڑی تھی۔ اور وہی سب کچھ جو کل کیا تھا آج پھر کرنا تھا۔ لیکن اس نے ولید کو فون پر سب اچھا ہے، ٹھیک چل رہا ہے، کوئی مسئلہ نہیں کہہ کر اطمينان دلا تو دیا مگر اطمینان ابھی اس کی قسمت میں تھا نہیں۔ رات کو ابا جی کو کھانسی کا دورہ پڑ گيا۔ کافی دیر سے آرام آیا تو وہ سونے کے لیے کمرے میں آ گئی۔
اگلے دنوں میں اسے لگنے لگا کہ وہ تو جیسے گھن چکر بن گئی ہے۔ باہر کے وہ سب کام جو ولید کرتا تھا اب اسے کرنے پڑتے تھے۔ گھر کے بہت سارے کاموں وہ اس کی مدد بھی کرتا تھا، اب وہ سب اسے ہی کرنے پڑتے تھے، ابا جی بوڑھے تھے، دیور اور بچے چھوٹے، وہ کتنی مدد کر سکتے تھے۔ 4، 5 ماہ کے اندر اندر اس کی ہمت جواب دینے لگی، اس کے انگ انگ میں تکلیف بیٹھ گئی، نہ وہ سکون سے سو سکے اور نہ دن کو آرام کر سکے۔ اس دوران ابا جی کو ہسپتال لے کر جانا، ان کی دوائیاں لانا، بچوں کے ہوم ورک میں مدد، غرض کہ ہر کام اسے ہی کرنا تھا۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر تھک چکی تھی۔ رمضان بھی شروع ہو چکا تھا اور روٹین مزید سخت ہو گئی تھی، سحری، افطاری، عبادت، اور باقی سب کام۔ اسے شدت سے ولید کی کمی محسوس ہونے لگی۔ اسے اپنا فيصلہ غلط لگنے لگا۔ اچھی بھلی زندگی تھی۔ سکون و آرام تھا۔ سب کام ہو رہے تھے۔ سیر وتفریح بھی ہوتی تھی لیکن ولید کے جانے کے بعد جیسے زندگی جامد ہو گئی تھی۔ وہ چڑچڑی ہو گئی تھی، بچے بدتمیز ہوگئے تھے۔ ابا جی بےچارے اکیلے سارا دن کمرے میں رہتے تھے۔
عید قريب تھی اور اس کے ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے تھے کہ وہ سب کچھ کیسے کرے گی؟ آج اس نے ولید کو فون کیا تو سب اچھا ہے، نہیں کہا، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہنے لگی ”ولید واپس آ جاؤ۔ ہم سب کو تمہاری ضرورت ہے، ہم یہاں اکٹھے مل کر بھلی بری گزار لیں گے۔ مجھے معاف کر دو۔ میں نے ہی ناشکری کی اور ان دس ماہ میں مجھے اس کی کافی سزا مل گئی، تم واپس آ جاؤ۔ خدا کے لیے عید ہم سب کے ساتھ آ کر مناؤ، ہماری عید تمہارے ساتھ ہی ہوگی.“
تبصرہ لکھیے