ہوم << تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے - ملک محمد سلمان

تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے - ملک محمد سلمان

سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کی اکثریت کا تعلق مڈل کلاس گھرانوں سے ہوتا ہے جو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ مگر ان قسمت کے ماروں کو کیا خبر کہ سرکاری سکول کالجز میں مفت داخلہ تو مل جائے گا مگر کلاس میں باعزت بیٹھنے کے لیے دولت کی ہوس میں اندھے ہوئے’’ اکیڈمی مافیا اساتذہ‘‘ کے ٹیوشن سینٹر میں جانا ضروری ہے۔ ماسٹر صاحب کی نجی اکیڈمی نہ جانے والے طلبہ زیرِعتاب نظر آتے ہیں اوراس جرم کی پاداش میں مختلف بہانوں سے شدید ذہنی اذیت کا شکار کیا جاتا ہے۔ کمرہ جماعت میں جان بوجھ کے مشکل سوال پوچھے جاتے ہیں اور بورڈ یونیورسٹی کا داخلہ تک روکنے کی گھٹیا حرکات بھی کی جاتی ہیں۔ اکیڈمی نہ جانے کی سزا صرف کلاس تک محدود نہیں ہوتی بلکہ سائنس مضامین کے پریکٹیکل امتحان میں اکیڈمی مافیا کے ’’پیٹی بھائی‘‘ اکیڈمی نہ پڑھنے والے گستاخوں کوسبق سکھانے کے لیے جہاں سفارشیوں کو ڈھیروں نمبر بانٹتے نظر آتے ہیں وہیں سفارش نہ ہونے والے طلبہ کو سر عام ’’عملی امتحان‘‘ میں کم نمبر دینے کی بدیانتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
غریب آدمی کو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے اپنے پیٹ میں گرہ دینا پڑتی ہے۔ چپڑی روٹی کی جگہ سوکھی روٹی نگلنا پڑتی ہے۔ اپنی روزمرّہ کی ضروریات کو اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات پر قربان کرنا پڑتا ہے۔ اپنی بیماری کا علاج کروانے کے بجائے اپنے بچوں کواکیڈمی بھیجنا پڑتا ہے۔ ورنمنٹ درسگاہوں (سکول ،کالجز اور یونیورسٹی) سے مسلسل غیر حاضر رہنے والے اور نسبتاً کم دکھائی دینے والے بھگوڑے اساتذہ جو اول تو وقت سے سکول کالج پہنچتے ہی نہیں اور اگر چلے بھی جائیں تو بد دلی سے لیکچر دیتے ہیں۔ جبکہ وہی اساتذہ اپنی قائم کردہ پرائیویٹ اور نجی اکیڈمیز میں ہمہ وقت موجود اور جانفشانی کے ساتھ تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے نظر آتے ہیں، اور اپنی نجی اکیڈمیز کے لیے اشتہارات کے ذریعے بچوں کو سبز باغ دکھا تے ہیں۔ فیل ہونا بھول جائیں، پاس نہیں تو فیس واپس، صد فیصد کامیابی کی ضمانت وغیرہ وغیرہ۔ ان تعلیم فروش اساتذہ نے اپنی ٹھاٹھ باٹھ کو بڑھانے اور طلبہ پر اپنی ڈھاک بٹھانے کے لیے پرائمری، مڈل، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ سے لے کر یونیورسٹی تک ہر امتحان میں اپنی ڈیوٹی بھی ضرور لگوانی ہوتی ہے۔ اپنے تعلقات کو استعمال میں لاتے ہوئے مارکنگ ڈیوٹی بھی لازم کرتے ہیں۔ ڈیوٹیوں سے بھرپور مالی فائدہ تو ہوتا ہی ہے، ساتھ میں اپنی نجی اکیڈمیز کے باہر مشہور زمانہ ڈائیلگ ’’پیپر سیٹنگ اور پیپر چیکنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے اساتذہ‘‘ لکھنے کاجواز بھی مل جاتا ہے۔
ان امتحانی ڈیوٹیوں کی وجہ سے اسکولوں اور کالجوں میں نصاب مکمل نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے یہ نفع خور اساتذہ بچوں کو پرانے نوٹس،گائیڈبک اور شارٹ کٹ گیس پیپر کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔گورنمنٹ اساتذہ کو پیسہ کمانے کی ایسی لت لگی ہے کہ وہ دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرلیتے ہیں۔ ہر سال پرائیویٹ بی ایس سی کرنے والوں کوگورنمنٹ کالجز سے عملی امتحان کے ہزاروں تصدیقی سرٹیفیکٹ دیے جاتے ہیں۔ جبکہ ان بچوں نے تو کبھی پریکٹیکل لیب تک نہیں دیکھی ہوتی مگر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے دوہزار سے لے کر پانچ ہزار فی سرٹیفیکیٹ کی لوٹ سیل لگائی ہوتی ہے۔ پانچ ہزار دے دو اور تصدیقی مہر ثبت کروالو۔ ایک طرف یہ عالم ہے کہ طلبہ کو گورنمنٹ کالج میں داخلہ نہیں مل رہا ہوتا تو دوسری طرف کالج پرنسپل کی دوسروں شہروں میں قائم اکیڈمیز میں پڑھنے والے طلبہ کالج دیکھے بنا ہی ریگولر داخلہ کے اہل ہوجاتے ہیں۔
استاد تو روحانی باپ ہوا کرتا ہے، اگر باپ ہی اپنی اولاد سے دغا کرنے لگے تو پھر خیر کی امید کیونکر رکھی جاسکتی ہے۔ اساتذہ جو کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں، ان کی غیر ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ وہ ان گھٹیا اور شرمناک افعال سے اپنے طلبہ پر انتہائی برے اثرات مرتب کر رہے ہیں، ان کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سے دیانتداری، فرض شناسی اور حب الوطنی کی امید کیونکر کی جاسکتی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے تعلیم کی فروغ کےلیے لاکھوں ذہین طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے مگر میں حکام بالا کی توجہ اصل مسئلہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ جب تک سرکاری اساتذہ کی نجی تعلیمی ادروں میں تدریس پر عملی طور پر پابندی نہیں لگائی جاتی تب تک تعلیمی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ آئے دن افسران بالا کی طرف سے میڈیا میں پریس ریلیز جاری کر دی جاتی ہے کہ سرکاری اساتذہ کے نجی تعلیمی اداروں میں درس و تدریس پر پابندی عائد ہے، خلاف ورزی کرنے والوں پر ’’پیڈاایکٹ‘‘ لگایا جائے گا۔ محکمہ تعلیم پریس ریلیز جاری کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتا ہے جبکہ گلی گلی، شہر شہر گورنمنٹ اساتذہ کی قائم کردہ نجی اکیڈمیز جہاں پر وہ پرنسپل، مینجنگ ڈائریکٹر اور سرپرست بن کر تعلیم فروشی کا دھندہ زوروں پر چلا رہے ہیں اور حکومتی دعووں کا منہ چرا رہے ہیں۔ اگر کوئی درخواست دے کر انکوائری لگوا لے تو’’مجاں مجاں دیاں پیناں ہوندیاں نے‘‘ کے مترداف محکمہ تعلیم سے ہی انکوائری آفیسر کلین چٹ جاری کر دیتا ہے۔ جناب سوال یہ ہے کہ باقی محکموں کی طرح’’ پیڈا ایکٹ‘‘ کی انکوائری عدلیہ یا کسی دوسرے غیرجانبدار ادارے سے کیوں نہیں کروائی جاتی؟ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بعد ازاں پتہ چلتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے انکوائری آفیسر تو خود با مشکل اپنی نجی اکیڈمی سے وقت نکال کے انکوائری کے لیے آئے تھے۔ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ تعلیم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔

Comments

Click here to post a comment