ہوم << واگ دا ڈاگ-محمد بلال غوری

واگ دا ڈاگ-محمد بلال غوری

m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri
کراچی میں آوارہ کتوں کو تلف کرنے کی مہم شروع ہوئی تو چند حساس لوگوں نے سندھ ہائیکورٹ کا دروازہ جاکھٹکھٹایا اور دہائی دی کہ صرف اگست کے مہینے میں 800کتوں کو وحشیانہ اور ظالمانہ انداز میں قتل کیا گیاہے جس سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے اور سخت تکلیف پہنچی ہے۔درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ کتوں کے قتل عام کی مہم کو فوری طور پر روکا جائے اور حکومت سے کہا جائے کہ کتوں کو زہر دینے کے بجائے بانجھ کرنے کے انجکشن لگائے جائیں ۔کراچی وہ بدنصیب شہر ہے جہاں تین سال پہلے روزانہ اوسطاً 9افراد مارے جارہے تھے اور آج حالات بہتر ہونے کے باجود بھی بلاناغہ قتل کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔حیرت ہے کسی درد دل رکھنے والے انسان کو یہ خیال نہیں آیا کہ انسانوں کے قتل عام پر صدائے احتجاج بلند کرے۔
بلوچستان میں سالہا سال سے مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں،حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق تو مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر صوبائی وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک ایک ہزار افراد کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔تعجب ہے اس ظلم و زیادتی پر کسی کا دل نہیں پسیجا۔پولیس حکام کے مطابق گزشتہ اتوار سی ٹی ڈی لاہور کے اہلکار 4دہشتگردوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے تھے کہ پہلے سے گھات میں بیٹھے ان کے ساتھیوں نے فائرنگ کر دی۔کون کہتا ہے ،آجکل معجزے نہیں ہوتے۔قدرت کا کرشمہ دیکھیں ،چاروں دہشتگرد موقع پر ہی مارے گئے،کسی پولیس والے کو خراش تک نہیں آئی اور حملہ آور بھی یوں غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق ایسے اصلی،معجزاتی اور کرشماتی پولیس مقابلوں میں گزشتہ برس 2115انسان مارے گئے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ہاں جب آوارہ کتے تلف ہونے لگتے ہیں تو ان حساس لوگوں کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔انسان تو روز مرتے ہیں،خبر تو تب ہے جب کتا انسان کی موت مرے اس لئے حقوق کی دہائی دینے والے اس الجھن میں نہیں پڑتے کہ کب کہاں کتنے انسان مر گئے۔
مہذب دنیا کتوں کی فطرت کو سمجھتی ہے اس لئے ان کے گلے میں پٹہ ڈال کر رکھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں آوارہ کتوں کی بہتات ہے ویسے جب آوارہ اور بد چلن کتوں کا ذکر ہوتا ہے تو سوچتا ہوں کیا ایسے کتے بھی پائے جاتے ہیں جو آوارگی اوربدچلنی کے قائل نہ ہوں؟بہر حال مغربی یورپ میں پالتو کتوں کی آبادی چار کروڑتیس لاکھ تک جا پہنچی ہے۔برطانیہ میں 68لاکھ پالتو کتے موجود ہیں۔اٹلی اور پولینڈ میں ان کی تعداد 75,75لاکھ ہے۔کینیڈا میں 60لاکھ کتے پائے جاتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ کتے فرانس میں جہاں ان کا تخمینہ 88لاکھ لگایا گیا ہے۔
ہمارے ہاں حکومت انسانوں کو گننے کا تکلف گوارا نہیں کرتی تو کتوں کا شمار کیسے ہو۔ہاں مگر یہاں کتے پالنے والے ان کے گلے میں پٹہ ڈالنے کے بجائے آوارہ مزاج بنانے کیلئے کھلا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے مخالفین پر بھونکیں بھی اور ضرورت پڑنے پر کاٹ بھی سکیں۔ ویسے تو یہاں سنگ مقید ہیں اور سگ آزادلیکن جب ان کتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ استعمال ہو رہے ہیں اور وہ اپنے مالکوں پر بھونکنے لگتے ہیں تو انہیں پاگل قرار دیکر مار دیا جاتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ بعض کتے ،کتے کی دُم ثابت ہوتے ہیں اور آسانی سے جان نہیں چھوڑتے۔
کتوں کا ذکر ہو اور پطرس بخاری یاد نہ آئیں ،یہ کیسے ہو سکتا ہے۔میرا گمان ہے کہ پطرس نے کتوں کو موضوع بنا کر ان کی عزت افزائی کی البتہ نگوڑے کتے کہتے ہیں کہ ان کی بدولت پطرس کو مقبولیت حاصل ہوئی۔پطرس کتوں کی ہلڑ بازی سے بہت تنگ تھے۔کتوں کے جلسے جلوسوں کی وجہ سے راستوں کی بندش کا گلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’کتوں کی یہ پرلے درجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔اگر ان کا ایک نمائندہ شرافت کیساتھ آکر کہہ دے کہ عالی جناب،سڑک بند ہے تو خد اکی قسم ہم بغیر چوں و چراں کئے واپس لوٹ جائیں۔لیکن سب کا یوں متحدہ و متفقہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینی حرکت ہے۔‘‘
1997ء میں ہالی وڈ کی ایک کامیڈی فلم ریلیز ہوئی جس کانام تھا’’Wag the Dog ‘‘یہ ایک انگریزی محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کسی جعلسازی کے ذریعے لوگوں کی توجہ ہٹانا۔اس فلم میں ایک امریکی ڈاکٹر صدارتی انتخابات سے چند روز قبل ووٹرز کی توجہ سیکس اسیکنڈل سے بھٹکانے کیلئے ہالی وڈ کے ایک ڈائریکٹر کی خدمات مستعار لیتا ہے اور البانیہ کے ساتھ امریکہ کی جنگ کا شوشہ چھوڑتا ہے تاکہ سیکس اسکینڈل سے ان کی توجہ ہٹ جائے۔چونکہ یہ فلم مونیکا لیونسکی اسکینڈل سامنے آنے کے چند روز بعد تب ریلیز ہوئی جب امریکہ نے سوڈان کے شہر خرطوم پر حملہ کیا تھا اس لئے لوگوں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔اس فلم کے آغاز میں ایک خوبصورت حقیقت بیان کی گئی ہے۔فلم کے نام کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ ہمیشہ کتا ہی اپنی دُم کو ہلاتا ہے کیونکہ وہ چالاک اور ہوشیار ہے اگر کتے کے مقابلے میں اس کی دُم زیادہ اسمارٹ ہوتی تو وہ ناچنے کے بجائے نچاتی۔
بہر حال بات ہو رہی تھی ’’واگ دا ڈاگ‘‘ کی۔ہمارے ہاں بھی سیاست کے بازار میں ایک عرصے سے توجہ ہٹانے اور لوگوں کو بھٹکانے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔بعض اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ حکومت پاناما لیکس کےا سکینڈل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ تحریک انقلاب،تحریک قصاص اور تحریک احتساب برپا کرنے والے ملکی ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈے سے توجہ ہٹانے اور لوگوں کو بھٹکانے کیلئے سڑکوں پر ہیں۔یہ لوگ ایک دوسرے کو بھٹکانے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں ،دونوں فریق میڈیا کو بھٹکانے میں ضرور کامیاب ہوچکے ہیں۔جب ان کی سیاست گردی عروج پر تھی تو راولپنڈی اور لاہور میں کئی بیمار سسک سسک کر مر گئے ۔ان کے لواحقین روتے پیٹتے اور منتیں سماجتیں کرتے رہ گئے۔
لیکن اس کے باوجود بعض ٹی وی چینلز کی نشریات پر ان بعض شعبدہ بازوں اور فال نکالنے والے طوطا مارکہ تجزیہ نگاروں کا غلبہ رہا اور اصل ایشوز نظر انداز ہوتے رہے۔جب ہمارا میڈیا ان فضولیات میں الجھا ہوا تھا تو غازی پور کی سینٹرل جیل میں متحدہ پاکستان کے ایک اور وفادار شہری میر قاسم علی کو پھانسی دیدی گئی۔عبدالقادر مُلا کی شہادت سے شروع ہونے والی اس انتقامی کارروائی میں اب تک بنگلہ دیش کے 6رہنمائوں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے اور ہم بطور احتجاج بنگلہ دیش کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ بھی نہیں کر سکے۔کتوں کے قتل پر غل مچ جاتا ہے مگر بنگلہ دیش میں انسانوں کے خون ناحق پر صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی کیونکہ چار سو ’’واگ دا ڈاگ‘‘کی پالیسی جاری ہے۔

Comments

Click here to post a comment