ہوم << بڑھتی ہوئی چیخیں - مبین امجد

بڑھتی ہوئی چیخیں - مبین امجد

مبین امجد میں جو ازل سے ہی تنہائی پسند تھا۔ آج بے چین اور بے سکون تھا۔
اگرچہ میرے حالات ایسے تھے کہ میں سدا سکون کی تلاش میں جنگلوں بیلوں کو نکل جایا کرتا تھا۔ اور مجھے سکون کیوں نہیں تھا۔ مجھے کیا پتہ؟
میں تو بس اتنا جانتا تھا کہ شہروں کے مزاج کا آدمی نہیں تھا میں۔ شہر مجھے ہمیشہ ہی سے اجنبی لگتے اور کبھی تو مجھے لگتا کہ شہر میری حالت زار پہ ہنس رہے ہیں۔
................................................
شہروں میں پھیلی بے چینی، لاقانونیت، بے ایمانی، جھوٹ اور مال و دولت کی حرص نے مجھے تنہائی پسند کر دیا۔ مگر۔
مگر میں ایک حیوان ناطق تھا انسانوں سے، اپنے ہم جنسوں سے کہاں تک جان چھڑواتا۔ ہاں مگر میں نے یہ کیا کہ زندوں سے ہٹ کر مردوں میں آگیا۔
میں شہروں سے نکل کر قبرستان میں آگیا۔
یہاں ہر طرف امن و امان تھا۔ کہ یہ مردوں کی دنیا تھی۔
گوکہ میں ابھی زندہ تھا۔ اور۔
................................................
گو کہ میں ابھی زندہ تھا اور گمان تھا کہ میرے شہر کے لوگ بھی زندہ تھے مگر وہ بے حسی میں ان مردوں سے بھی گئے گزرے تھے۔
یہ مردے۔
انہوں نے زندگی کیسی بھی گذاری تھی مگر اب یہاں مکمل امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے۔ زندگی میں کاروباری حریف اب یہاں ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی تھے۔ راتوں کو محفلیں جمتیں۔ مگر۔
مگر اب یہاں کی رونقیں اور سکون کہیں اور جا بسا تھا۔
................................................
یہاں کی رونقیں پچھلے کچھ عرصے سے ماند پڑ گئی تھیں۔ یہاں کا بھائی چارہ رخصت ہو گیا تھا۔
ہر کوئی سہما ہوا تھا۔ راتوں کا سناٹا اب یاد ماضی تھا۔ اور وجہ
اور وجہ اس کی یہ تھی کہ جب تک لوگ طبعی عمر پوری کر کے آتے تھے یہاں سکون تھا۔ مگر اب۔
مگر اب یہاں جو بھی آتا کٹا پھٹا، سربریدہ، اس کا خون بہتا ہوا، کسی کی آنکھ نہیں تھی تو کوئی اپنی ٹانگ گنوا کر آرہا ہے، کسی کا سر نہیں تھا، پتہ نہیں یہ مخلوق کہاں سے آتی تھی۔
ساری ساری رات یہ نئے آنے والے چیختے چلاتے رہت، پوری رات روتے رہتے۔ اور
................................................
پچھلوں کو ڈراتے رہتے۔ جانے یہ لوگ کہاں سے آگئے تھے۔ جنہیں کسی سے کوئی غرض نہیں تھی بس اپنی تکلیفوں پہ رونا اور چیخنا ہی ان کا کام تھا۔
اور آئے دن یہ چیخیں بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔
کیونکہ باہر زندوں کی دنیا بے حس ہو گئی تھی۔ وہ لوگ درندوں سے بڑھ گئے تھے۔ آئے دن کہیں نہ کہیں دھماکہ ہو جاتا۔ ٹارگٹ کلنگ بھی اب معمول کا حصہ بنتی جا رہی تھی۔
میری دنیا کے لوگ۔ میرے ہم جنس ہی ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے تھے۔ اور آئے دن ایک دوسروں کو مار رہے تھے۔
................................................
اور ان نئے آنے والوں نے یہاں کا بھی سکون برباد کر رکھا تھا۔ جس بے چینی سے بھاگتا ہوا میں یہاں آگیا تھا۔ اب لگتا تھا کہ۔
اب یہاں بھی جائے اماں نہ تھی۔
ساری ساری رات یہ لوگ چیختے چلاتے اور آئے دن یہ چیخیں بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔
اور ان بڑھتی ہوئی چیخوں نے یہاں کے باشندوں کو بھی بے چین کر دیا تھا۔
اوہ بے حسی کے مارے لوگو اپنے پرکھوں کا ہی خیال کر لو کہ وہ کس قدر تکلیف میں ہیں۔ انہوں نے اپنی جانیں تک اس وطن کو سینچتے ہوئے قربان کر ڈالیں۔ ذرا تصور کرو کہ وہ ان حالات پہ کس قدر افسردہ ہیں۔
ان بڑھتی ہوئی چیخوں نے ان کی راتوں کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

ٹیگز