ہوم << معصوم بچہ - محمد ندیم

معصوم بچہ - محمد ندیم

وہ کوڑے کے ڈھیرسے کاغذ چن رہا تھا
میں اس کے دل کی صدائیں سن رہا تھا
ریشم میں لپٹااس کا ریشم کی طرح دل
ٹوٹے ہوئے کسی انجم کی طرح دل
کہتا تھا کہ مجھ میں تمنائوںکا طلاطم ہے
مگران تمنائوں پہ جہاں والوں کا ستم ہے
لوگ نا آشنا ہیں کہ مرے سینے میں بھی دل ہے
جس میں کھلتے ہی سوکھ جاتا آرزو کا گل ہے
مرے نخلِ تمنا کو نہ ملی با غباں کی صحبت
مرجھا کے گر گیا پر نہ ملا آبِ چاہت
نہ دیکھ کہ میں صرف ردی کو ڈھو نڈتا ہوں
میں بھی لا حا صل سپنوں کو سوچتا ہوں
لگتا ہے کہ ابنِ آ دم نہیں ہوں میں !
کیوں کسی کے درد کا ماتم نہیں ہوں میں!
وہ دل رو پڑا پنے بیا ں کے بعد
تھا بہار کا طالب لمبی خزاں کے بعد
کو ئی تو اس گل کو مرجھا نے سے بچا لے
اٹھا کے ڈھیر سے اپنی دستار میں سجا لے

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment