ہوم << بوڑھے والدین اور ہمارا رویہ - سحر فاروق

بوڑھے والدین اور ہمارا رویہ - سحر فاروق

سحر فاروق ’’بیٹی کہاں جا رہی ہو؟‘‘ اپنی دھن میں مگن چلتے ہوئے اگر آپ کو راستے میں اچانک کسی ایسے سوال کا سامنا ہو جائے، تو آپ بھی میری طرح پہلے سٹپٹائیں گے اور آواز کا تعین بعد میں کریں گے.
کل ایک قریبی عزیزہ کے ہاں جانا تھا، ان کی رہائش نزدیک تھی چنانچہ پیدل ہی رخت سفر باندھا. گلی سے نکل کر اپنی منزل کی سمت رخ کیا ہی تھا کہ ایک اجنبی مگر نحیف و نزار آواز نے بڑھتے قدم روک دیے۔ اردگرد نگاہ ڈالی تو دیکھا ایک کیاری کی منڈیر پر ایک ضعیف العمر خاتون بڑی مشکل سے خود کو سنبھالے بیٹھی ہیں۔ قریب ہو کر جواب دیا کہ ایک کام کے سلسلے میں جا رہی ہوں۔ چونکہ میری اور ان کی سمت علیحدہ تھی تو انہوں نے کہہ تو دیا کہ بیٹی جائو میں کسی اور کو دیکھ لیتی ہوں مگر ان کے لہجے کی مایوسی نے مجبور کیا تو ان سے پوچھا کہ آپ کو کہاں جانا ہے، میں چھوڑ دیتی ہوں، مجھے کوئی جلدی نہیں۔ اس پر انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ احسان مندی اور تشکر سے دیکھا تو شرمندگی سی محسوس ہوئی۔ ان کا ہاتھ تھام کر میں نے آہستگی سے نیچے اتارا، انھیں چلنے میں کافی دشواری کا سامنا تھا، میں ان کی سہولت کے مطابق ہی چلنے لگی۔ رندھی آواز میں انہوں نے بتایا کہ دو بیٹے تھے اور دونوں کا عین جوانی میں انتقال ہوگیا۔ مجھے یہ سننے سے زیادہ دکھ ان کی پرملال اور حزن میں ڈوبی آواز پر ہو رہا تھا، جس دکھ اور تکلیف سے وہ بتا رہی تھیں، میرادل کٹ رہا تھا کہ واقعی ماں باپ کے لیے اولاد کا غم سہارنا کتنی بڑی آزمائش ہوتا ہے۔ شوہر اور بیٹیوں کے بارے میں استفسار کرنے پر جواب دیا کہ وہ بھی میری طرح بیمار رہتے ہیں اور بیٹیاں اپنے سسرال میں مگن . بڑھاپے میں کون پوچھتا ہے، بس موت کے انتظار میں جی رہے ہیں. یہ کہہ کر وہ پھر بےآواز رونے لگیں. میری مزید کچھ بولنے یا پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی. ان کے مطلوبہ مکان پر دستک دے کر میں لوٹ گئی اور سارا راستہ اپنے اجتماعی بےحسی کا شکار ہوتے رویوں کے بارے میں سوچتی رہی۔
ہم نے مغرب کی طرح اولڈ ہوم تعمیر نہیں کیے مگر کیا اس عورت کا گھر اولڈ ہوم کا عملی نمونہ نہیں جہاں قسمت نے بیٹوں سے تو محروم کیا مگر بیٹیاں بھی اپنے فرض سے بری الذمہ ہو کر بیٹھ گئیں اور اس مجبور اور بےبس ماں کو راہ چلتے مسافروں سے مدد کی درخواست کرنا اور شرمندہ ہونا پڑ رہا ہے۔ تلحخ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں ہے، کم و بیش ہمارے معاشرے کا مجموعی رویہ ایسی ہی تصویر دکھا رہا ہے. ہر فرد اپنے فرائض سے پیچھا چھڑا کر حقوق کا علم تھامے بندگلی میں پھنسا ہوا ہے، اس بات سے بےخبر کہ ہمارے فرض کی ادائیگی ہی دوسرے کو حق دلواتی ہے۔ لیکن محض باتوں سے تو کبھی بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، معاشرے کی مثبت تعمیر کےلیے عمل کی راہیں نکالنی ہی پڑتی ہیں.
ہم کیا کر سکتے ہیں ماں باپ کے لیے یا قرب و جوار میں بزرگوں کے لیے. بیاہی لڑکیوں میں یہ ایک رحجان ہے کہ سب سے ملاقات کی خواہش میں دیگر بہنوں کے ساتھ میکے آتی ہیں، مگر سوچیے کہ اگر یہی ملاقات والدین سے علیحدہ آ کر کر لی جائے تو بوڑھے والدین جو کچھ کہتے نہیں، ان کا بھلا ہوجائے گا، من ہلکا ہو جائے گا. پھر جو تم آئوگی، کچھ پکا رکھ جائوگی، ماں کے بکھرے بال سنوار دوگی، شفیق باپ جو تمھارے انتظار میں دن گنا کرتا ہے، اس سے دو گھڑی باتیں ہی کرلوگی۔ چلو سسرال سخت ہے، نہیں آسکتیں، وہیں سے خبر گیری کر لیا کرو، فون ہی کرلیا کرو. تم ابھی سمجھ ہی نہیں سکتیں کہ تمھارے بعد جو گھر میں سناٹے راج کرتے ہیں، اس میں تمھارے فون کی آمد کا مژدہ ہی ماں باپ کو زندگی بخش دیتا ہے۔ کر سکتی ہو نا ایسا تو ضرور کرو. اور جو لڑکے والدین سے الگ ہو جاتے ہیں، انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ ’’اپنی‘‘ ہی بیگم پر بار نہیں ڈالنا چاہتے، مت ڈالیں لیکن ایک دن تو وقف کر ہی سکتے ہیں، جہاں والدین جانا چاہیں لے جا سکتے ہیں، اشیائے ضروریہ اور ادویہ فراہم کر سکتے ہیں۔
میں اور آپ ایک اچھے اور ذمہ دار پڑوسی کا کردار بھی نبھا سکتے ہیں، سودا سلف لا کر، ایک وقت کا کھانا بجھوا کر، ان کےگھر کی صفائی سھترائی میں حصہ ڈال کر. جن کی اولاد نہیں ہے یا تنہائی کا تحفہ دے گئی ہے، اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی ذمہ داری کا ادراک کرکے اس کو احسن طریقے سے ادا کرے تو مجھے یقین ہے کہ آئندہ کوئی بیٹی کسی بےبس ماں کے سوال پر خود کو مجرم نہیں سمجھے گی.