ہوم << تیرے وعدے پہ جئے ہم.....!!-ڈاکٹر صفدر محمود

تیرے وعدے پہ جئے ہم.....!!-ڈاکٹر صفدر محمود

dr-safdar-mehmood
زندگی سے ایک سبق یہ بھی سیکھا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بیانات کو اگنور کردینا چاہئے اور اگر ہوسکے تو انہیں پڑھنے پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اول تو یہ بیانات گزشتہ فرمودات کی بلاسوچے سمجھے تکرار اور اعادہ ہوتے ہیں، دوم یہ عام طور پر جھوٹے وعدوں اور سبزباغ دکھانے کی ’’واردات‘‘ ہوتے ہیں جبکہ یہ دعوے سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی وعدہ بھی ایفا نہیں ہوا۔ رہا سبزباغ دکھانے کا جادو تو وہ مستقبل کا خواب ہے کب پوراہو، کتنا تشنہ ٔ تعبیر رہے اور کتنی خوشحالی لائے، اللہ تبارک تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کیونکہ اگر ہم اپنے حکمرانوں کے بیانات پر یقین کرتے تو اب تک پاکستان میں شرح خواندگی سوفیصد کے قریب ہونی چاہئے تھی۔
ہر شہری کو علاج و معالجے کی سہولت اورہر بچے کو اسکول میسر ہونا چاہئے تھا۔ غربت، مہنگائی اوربیروزگاری کا ذکر ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ آج کے زمینی حقائق دیکھیں توصورتحال مزید ابتر ہوئی ہے، بنیادی سہولتیں مزید کم یاب ہوئی ہیں، مہنگائی اس قدر کہ دال بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہے، غربت وافلاس کے سبب خودکشیوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا۔ 70بلین ڈالر کے بیرونی قرضے ملک کی تاریخ کا نیاریکارڈ ہیں جو ہماری آئندہ نسلوں کو ادا کرنے ہیں۔ برآمدات گزشتہ سال سے بھی کم ہیں اور ملک عملی طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے بیس ارب ڈالرسے چل رہا ہے۔ حکمران ہمیں معاشی راہداری، سی پیک کے خوابوں سے بہلا کر گیم چینجر اور خوشحالی کے سیلاب کے آمد کی خبریں سنا رہے ہیں۔ قوم بھی ا ن مدھر نغموں کوسننے میں مست ہے لیکن کل کیا ہوگا؟ کوئی نہیں جانتا۔
اگر ماضی کوئی ثبوت یا آئینہ ہوتا ہے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکمرانوں کے وعدے محض کھلونے ہوتے ہیں جن سےقوم کو بہلایا جاتا ہے اور پھر سیاست کے مداری ڈگڈگی بجا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ قوم کو اندھیروں سے نکالنے اور لوڈشیڈنگ سے نجات دینے کا وعدہ انتخابات سے قبل چھ ماہ کا تھا، پھر ایک سال کا خواب دکھایا گیا، پھر تین برس کی ڈگڈگی بجائی گئی۔ اب سواتین سال حکومت گزرنے کے بعداگلے دو سالوں کے وعدوں پر ٹرخایا جارہا ہے۔ کبھی کبھی کچھ صاحبان ِ اقتدار سچ بھی بول دیتے ہیں کہ 2018تک بھی لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوگی۔ سوا تین برس کی حکمرانی نےبہتری کے آثار پیدا نہیں کئے، تو آئندہ کا کیا بھروسہ؟
دیہی علاقوں میں مسلسل کئی کئی گھنٹوں کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ضلعی مقامات کے اسپتالوں میں ڈاکٹر بجلی کی نایابی کے سبب موبائل کی روشنی میں آپریشن کرنے پر مجبور ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں دس بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ معمول ہے لیکن کبھی کبھار بجلی مسلسل پانچ چھ گھنٹے تک تشریف لے جاتی ہے۔ ہمارے محبوب وزیراعظم انتخابی مہم کے دوران ایک سال اور پھر دوسال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کاوعدہ فرماتے رہے لیکن آج وہ پھر اپنےپرانے بیان کا اعادہ کرتے ہوئے وعدہ فرما رہے ہیں کہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے لوڈشیڈنگ ختم کریں گے۔ اگر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ان کی حکومت کے خاتمے سے مشروط ہے تو کہیں لوگ حکومت کے وقت سے پہلے خاتمے کی دعائیں نہ کرنےلگیں؟قوم وعدوں پر زندہ ہے لیکن مجھے کبھی کبھی اس اندیشے سے خوف آتا ہے کہ اگر اقتصادی راہداری، سی پیک سے وابستہ خوشحالی اورگیم چینجر کی امیدیں بھی پوری نہ ہوئیں تو ہمارا کیا حشرہوگا؟
خواب دکھاتے ہوئے مبالغے اور جھوٹ کی رنگ آمیزی سے کام لینا سیاست اور حکمرانی کا دیرینہ وطیرہ ہے۔ تاریخ کے صفحات میں جھانکیں تو شاید ہی کسی حکمران نے وعدے پورے کئے۔ وعدوں میں شاعری اورمبالغہ اپنی جگہ لیکن اس کی ایک بنیادی وجہ ہمارے حکمرانوں کی نااہلیت اور کرپشن بھی تھی۔ میں نے حکومتوں میں ہمیشہ یہی دیکھا کہ حکمران مستقبل کے سہانے خواب تو دکھا دیتے تھے لیکن ان میں ان خوابوں کوشرمندہ تعبیر کرنے کی اہلیت نہیں تھی۔ حکومتی پالیسیاں ڈنگ ٹپائو، وقت گزاری، عیش و عشرت، بیرونی دورے اور پیسے بنانے میں ڈوب جاتی تھیں۔ وزیراعظم کے 68کروڑ روپوں کے غیرملکی دورے الگ۔ اب کشمیرکاز کی ترویج کے نام پر منتخب نمائندوں کو سیر و سیاحت کروا کر خوش کرنےکی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔ جس سے کشمیریوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ غریب ملک کے خزانے کو کروڑوں روپوںکا ٹیکہ لگ جائے گا۔ اس ٹیم میں دو تین افراد کے علاوہ نہ کوئی کشمیر پر بات کرنے کا اہل ہے اور نہ ہی اس حوالے سے بیرون ملک کوئی خدمت کرسکتا ہے۔ بھلا دوست ممالک میں وفد بھیجنے سے کیا حاصل؟
وہ تو پہلے ہی آپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس وقت کشمیر کے حوالے سے اہم ترین ضرورت ہندوستانی مظالم کو عالمی میڈیا میں اجاگر کرنا ہے تاکہ عالمی سطح پر رائے عامہ کشمیریوں کے مطالبے کے حق میں اور ہندوستان کے خلاف استوار ہو۔ کیا یہ وفود بیرون ملک میڈیا کو کشمیر کے حوالے سے قائل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جبکہ خود پاکستان پر دہشت گردی کا الزام نمایاں ہے۔ رہیں غیرممالک کی حکومتیں تو وہ اپنی اپنی حکمت ِ عملی اور تعلقات کی پابند ہوتی ہیں۔ ہمارے پارلیمانی وفد ان کی رائے تبدیل کرسکیں گے نہ حکمت عملی۔ قومی خزانے کو ان وفود پر ضائع کرنے سے پہلے ایک مربوط اسکیم کی ضرورت تھی جس پر غور و خوض نہیںہوا۔ میں دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ اگر پاکستان کشمیر کی تحریک ِ آزادی کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو تحریک کے جواز اور ہندوستانی مظالم کو عالمی میڈیا میں اجاگر کرنے کی حکمت عملی بنائے، عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے اقدامات کرے اور ایسے پڑھے لکھے میڈیا ماہرین کو باہر بھجوائے جو یہ کام سرانجام دینے کے اہل ہوں۔ میرا طویل تجربہ شاہد ہے کہ ہمارے پارلیمانی وفود ایک آدھ وزیر شامل کرکے اور پاکستانیوں کی ایک دو تقریبات سے خطاب کے بعد شاپنگ سے مالامال ہو کر واپس لوٹ آتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
ذکر ہو رہا تھا کہ میں حکمرانوں کے بیانات سے صرفِ نظر کرنا بہتر سمجھتا ہوں لیکن کبھی کبھی کوئی ایسا بیان بھی پڑھنے کو مل جاتا ہے جس سے صدمہ ہوتا ہے اور سچ پوچھو تو رحم آتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کا یہ بیان کہ چین دنیا میں پاکستان کے تشخص کا محافظ ہے..... ایک ایسا ہی بیان تھا جسے پڑھ کر مجھے بیان پر رحم آیا۔ سادگی کی انتہا ہے کہ بھلا کبھی کوئی دوسرا ملک یا قوم بھی پاکستان کے تشخص کی محافظ ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ چین ہمارا مخلص، وفادار اورقابل اعتماد دوست ہے لیکن تشخص تو ہر قوم کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ حکومت اور قوم ہی کو اس کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر چین کا تشخص ہم سے بالکل مختلف اور الگ ہے لیکن یہ موضوع بذات ِ خود کئی کالموں کا موضوع ہے۔ فی الحال اتنا لکھنا ہی کافی ہے کہ یہ بیان پڑھ کر مجھے اپنے آپ پر، پاکستانی قوم پر اور حکمرانوں پر رحم آیا اور ان کی سادگی پر آنکھیں بھیگ گئیں۔
حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملکی تاریخ میں توانائی پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سرمایہ کاری کا حشر نندی پور پروجیکٹ سے لے کر قائداعظمؒ سولر پروجیکٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ سرمایہ کس قدر بہایا اور لگایا گیا، قومی خزانے کا زیاں کس طرح ہوا اور حاصل کیا ہوا اسے سمجھنے کے لئے ایک کیس اسٹڈی پیش خدمت ہے۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ قائداعظمؒ سولر پروجیکٹ بہاولپور پر اربوں روپوں کی سرمایہ کاری ہوئی تھی، وزیراعلیٰ نے اپنے اس کارنامے پر خوب ڈھول بجوائے تھے لیکن کارکردگی یہ ہے کہ اس منصوبے سے سو میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی گئی تھی جبکہ اصل میں 8 سے لے کر 12میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کو پیداوار پر تقسیم کریں تو فی میگاواٹ کی قیمت سن کر قوم بے ہوش جائے گی۔ بریفنگ کے مطابق اس سولر پروجیکٹ پر چین کے چھ سو قیدی کام کرتے ہیں جن کی حفاظت کے لئے حکومت نے آٹھ سو پولیس والے تعینات کر رکھے ہیں۔ اس خبر کے آئینے میں سرمایہ کاری کے حشر، قومی خزانے کے زیاں اور مستقبل کے خوشنما وعدوں کی تکمیل کی جھلک دیکھ لیں کہ آپ خود عقلمند ہیں۔ یہ شعر اسی موقعے کے لئے کہا گیا تھا؎
تیرے وعدے پہ جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا