سول اسپتال کے وارڈ میں کوئلہ ہوئے جسم پر وہ خاتون اور مرد آپس میں بحث کررہے تھے، خاتون اسے اپنے بیٹے کی لاش قرار دے رہی تھی جبکہ مرد اسے اپنا بیٹا بتا رہا تھا۔ مگر تھی وہ ایک لاش، کوئلہ بنی لاش، ناقابل شناخت۔ اور وہ دونوں اسے اپنا اپنا لخت جگر کہہ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے درد کو سمجھ بھی رہے تھے اور تکلیف کا اندازہ بھی تھا۔ ان دونوں کے درمیان ہونے والی بحث تند و تیز جملوں پر مشتمل نہیں تھی بلکہ منت سماجت، بے بسی، فریاد اور درخواست پر مبنی تھی۔ کوئلہ بنے 250 سے زیادہ انسانی اجسام میں سے اپنے جگر کے ٹکڑے کو ڈھونڈنا ہمت اور حوصلے کا کام تھا۔ اسپتال کا وارڈ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں زندہ جلائے گئے مزدوروں کے لواحقین سے بھرا ہوا تھا۔ اسپتال کے ہر بستر پر پڑے کوئلے کی ایک گھٹڑی کے پاس ایسی ہی ایک کہانی تھی۔ مجھ سے دیکھا نہ گیا اور وہاں سے باہر آگیا جہاں دیگر صحافی بھی ایک دوسرے سے منہ پھیر کر اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کررہے تھے۔ چلو خیر چھوڑو، آگے بڑھتے ہیں۔
12مئی 2004ء کو شہر میں ضمنی انتخابات ہوئے تو 11 افراد کو موت کی نیند سلا کر کراچی پر اپنے دعوے کی سچائی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ داد تو صبر و استقامت کا مظاہر ہ کرنے والی اس ماں کو دینی پڑتی ہے جس نےاکلوتے نوجوان بیٹے عبدالرحمان کو آخری سفر پر روانہ کیا۔ عبدالرحمان کے ساتھ 10 افراد کے جنازے اور بھی تھے۔ خیر چھوڑیے اسے، آگے بڑھتے ہیں۔
ہاں مجھے 12مئی کو چیف جسٹس کو خوش آمدید کہنے والوں کی لاشیں بھی یاد ہیں۔ زخمی بیٹے کے پاس کھڑے ایک پٹھان غیور باپ سے جب میں نے کہا کہ حکومت نے شہداء کے لیے ایک کروڑ اور زخمیوں کے لیے پچاس لاکھ کا اعلان کیا ہے تو اس بزرگ کا چہرہ غصہ سے لال ہوگیا۔ اس نے کہا کہ میرا ایک بیٹا شہید ہوا ہے اور ایک یہ زخمی پڑا ہے۔ میں حکومت کو دس کروڑ روپے دیتا ہوں مجھے ان کے قاتل دے دے۔ ہم پٹھان لاشوں کے سودے نہیں کرتے۔ خیر چھوڑیے اس واقعے کو، آگے بڑھتے ہیں۔
پھر سلطان آباد کی وہ رکشہ ڈرائیور کی بیوی جو خود کو اس رکشہ ڈرائیور کی قاتل سمجھتی ہے۔ اس نے کہا کہ تین دن کی خونی ہڑتال نے گھر پر فاقے کرادیے تھے۔ بچوں کی بھوک دیکھ کر رہا نہ گیا تو میں نے اپنے شوہر کو مزدوری پر جانے کے لیے مجبور کیا۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد خبر آئی کہ اسے نامعلوم دہشت گردوں نے روزگار کی تلاش کے جھنجھٹ سے نجات دلا دی۔ وہ عورت آج بھی خود کو اپنے شوہر کا قاتل سمجھتی ہے۔ خیر چھوڑیے اسے، آگے بڑھتے ہیں۔
9 اپریل 2008ء کو وکلاء کے دفاتر پر مشتمل پلازہ طاہر پلازہ کو گن پائوڈر استعمال کرکے آگ لگا دی گئی۔ مرکزی دروازہ بند کردیا گیا تاکہ وکلاء باہر نہ آسکیں۔ کئی وکیل زندہ جلا دیے گئے۔ انصاف کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ خیر چھوڑیے اسے بھی، آگے بڑھتے ہیں۔
12ربیع الاول کو نشتر پارک میں بم دھماکہ ہوا ور سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی مختلف جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو ایک ساتھ اڑا دیا گیا، مخالفین کا یہ حشر دیکھ کر شہر میں حق گوئی کو سانپ سونگھ گیا۔ مگر یہ تو ماضی ہے، چھوڑو آگے چلو۔ عاشورہ بم بلاسٹ کے ذریعے زائرین لاشوں میں بدل دیے گئے اور منظم انداز میں پروپیگنڈہ کرکے اسے فرقہ وارانہ تصادم میں بدلنے کی کوشش کی گئی. بعد ازاں سب سے پہلے اجمل پہاڑی نے اپنی جے آئی ٹی میں بھانڈا پھوڑا، پھرگرفتار ہونے والے دوسرے دہشت گردوں نے حقائق کھول کر رکھ دیے۔ خیر پرانی بات ہوگئی آگے چلو۔
غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کے 1988ء سے لے کر آج تک 2 لاکھ نوجوان کراچی کی لسانیت کی نذر ہوچکے ہیں جبکہ 2008ء سے 13 تک 22 ہزار نوجوان کراچی کی سڑکوں پر لاشوں میں بدل دیے گئے۔ مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ آج جو یہ انکشاف کررہے ہیں یا کروا رہے ہیں کہ یہ دہشت گرد را کے ایجنٹ ہیں، وہی ان را کے ایجنٹوں کی پیدائش کے ذمہ دار ہیں اور جب یہ را کے ایجنٹس 90ء کی دہائی کے اختتام پر اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے تو انھوں نے ہی ان دہشت گردوں کواپنا اتحادی بنا کر شہر میں قتل و غارت گری کا لائسنس دیا۔
دنیا کا کوئی ملک ایسا ہے جہاں ایک شہر میں تین دہائیوں میں لسانیت کو پروان چڑھانے کے لیے اڑھائی لاکھ مائوں کی گود اجاڑ دی گئی ہو اور عوام کو تحفظ دینے والے خاموش تماشائی ہوں۔ اور اب، اب بات یہاں تک پہنچی ہے کہ پاکستان مردہ باد بھی کہہ دیا گیا ہے، بیرونی مدد ملنے پر پاکستانیوں کو مارنے کا اعلان بھی کردیا گیا مگرارباب اختیار کی صرف آنیاں جانیاں دیکھنے والی ہیں۔ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھتے ہیں، فاروق ستار اور وسیم اختر سمیت دیگر کراچی کے رہنما مسلسل اس جملے کی گردان کرتے نظر آرہے ہیں۔ حضور کہنا یہ ہے کہ کراچی دہشت گردی کا ایسا کنواں ہے کہ جس سے گندے پانی کے چند ڈول نکال کر اسے پاک کرنے کے بجائے اس کنویں سے کتا نکالنا ہوگا، ورنہ اس شہر پر دہشت گردی کا عفریت یوں ہی مسلط رہے گا۔
تبصرہ لکھیے