ہوم << لفظ استاد کی ارزانی اور فیس بکی استاد - محمد فیصل شہزاد

لفظ استاد کی ارزانی اور فیس بکی استاد - محمد فیصل شہزاد

زرتشت کی مرقومات کا مجموعہ ’’اوستا‘‘ کہلاتا ہے. اب چونکہ مذہبی کتابوں کے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے فیس بک آئی ڈی کی نہیں بلکہ خاصی قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ’’اوستا‘‘ نامی مجموعہ تو پھر نہایت قدیم ایرانی زبان میں تھا جس کے سمجھانے والے ویسے بھی بہت کم تھے، چنانچہ جو حضرات ’’اوستا‘‘ کے ماہر ہوتے، ان کو لفظ ’’اوستا‘‘ کی مناسبت سے استاد کہا جانے لگا.
شروع میں یہ لفظ مذہبی کتابوں کے سمجھنے سمجھانے والے کے لیے ہی مختص تھا. کچھ عرصے کے بعد مگر یہ تخصیص ختم ہو گئی اور دینی و دنیوی تمام علوم و فنون کے تعلیم دینے والے کو استاد کہا جانے لگا. پھر ایک زمانہ وہ بھی آیا کہ علم کی تخصیص بھی ختم ہو گئی اور لفظ ’’استاد‘‘ کا اطلاق ہر فن کے ماہر کے لیے عام ہو گیا حتی کہ ناچ گانا سکھانے والے میراثی یا سارنگی بجانا سکھانے والے کو بھی استاد جی کہا جانے لگا.. لیکن! الفاظ کی اس ارزانی کے باوجودیہ لفظ ’’استاد‘‘ بہرحال ان عزت والے اور باوقار الفاظ میں شامل تھا، جو خود اپنے لیے استعمال نہیں کیے جاتے تھے بلکہ اس لفظ سے جڑی ہوئی عزت ہی دراصل اس میں تھی کہ دوسرے اس کے علم کا اعتراف کرتے ہوئے احترام سے اسے استاد تسلیم کریں.
یہ اتنی عام بات تھی کہ لفظ’’استاد‘‘جب اپنی معراج سے تنزلی کی انتہا کو پہنچا اور ہر چلتے پرزے اور بدمعاش کو بھی استاد کہا جانے لگا تو اس وقت بھی آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ کوئی بدمعاش یا جیب کترنے میں ماہر لفنگا خود کو، خود سے کبھی استاد کہے، جب تک کہ اس کے چیلوں کا ایک گروہ اس کی ’’استادیوں‘‘ کی وجہ سے اسے استاد اور اپنا گرو تسلیم نہ کر لے مگر!
سوشل میڈیا کی نفسیات میں نرگسیت کا دخل اب اتنا ہوگیا ہے کہ ہم نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے آج دیکھا:
کچھ ’’فیس بکی نرگسوں‘‘ نے خود ہی اپنے آپ کو استاد کے سنگھاسن پر بٹھا لیا ہے. خود ہی اپنے آپ کو استاد کہہ رہے ہیں، اور خود ہی اپنی دکان پر آوازیں لگا لگا کر شاگرد جمع کر رہے ہیں. اور یہی نہیں!
ستم درستم تو یہ ہے میرے دوستو! کہ وہ جس فن میں کاملیت کا دعویٰ کر کے اپنے آپ کو استاد show کرا رہے ہیں، وہ ابھی خود اس فن کی الف ب سے بھی واقف نہیں! کیا یہ صریح ظلم نہیں؟
اف کیا بے رحم وقت ہے کہ انسان ہی نہیں الفاظ بھی دربدر ہوئے پھر رہے ہیں.