ہوم << اسلام اور قومی ریاست کا تصور-سعادت سید

اسلام اور قومی ریاست کا تصور-سعادت سید

sadat said کسی حکم کی شرعیت کا ثبوت شریعت کے اپنے مآخذ اور اصولوں ہی کےاندرسے ڈھونڈھنا لازمی ہے، لیکن روایت کچھ ایسی بنتی دکھائی دے رہی ہے کہ اب احادیث اور قرآن سے براہ راست استدلال کا "فیشن" کم ہو رہا ہے اورموجودہ ٹرینڈز میں "ان/in" کی بنیاد پر ایک رائے بنا کراسکے لئے شریعت کےمآخذ میں سند جواز کی تلاش کی جاتی ہے اور اس طرح وہاں ان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر سمجھنے اور استدلال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. جو کہ اس طرز عمل کا لازمی تقاضہ ہے.
اسکے برعکس قرآن فہمی کی پہلی شرط ہی قرآن نے یہی بیان کی ہے کہ یہ ہدایت ہے مگر ان لوگوں کیلئے جو ہدایت کی طلب سے اس کا مطالعہ کرتے ہوں..."هدہدی للمتقین"... نہ کہ کسی مفروضہ بات کیلئے دلیل ڈھونڈھنے کی نیت سے پڑھنے والوں کو. تلاوت کے اپنے معنی ہی میں یہ اتباع اور پیچھا کرنے کی بات ہے....والشمس و ضحاهاوالقمر اذا تلاها..."سورج کی اور اسکی دھوپ کی قسم .اور چاند کی جب وه اسکے پیچھے آئے"
قرآن، حدیث، اجماع، تاریخ، صحابہ کرام اور دیگرسلف صالحین اور مسلمان فقہاء کی آراء کو نظرانداز کرکے ایک رائے قائم کرنے کیلئے کیا جائز ہے کہ اسکوشرعی رائے کا نام دیا جائے... بہت ساری آرا اور نظریات غیر مسلم بھی تو پیش کرتے رہتے ہیں اور انکو اسلام کا نام دئے بغیربھی چاہے کچھ وقت کیلئے ہی سہی پزیرائی مل ہی جاتی ہے تو ان social scientists کی طرح ہمارے وہ حضرات بھی کیوں نا اپنی آراء کو اسلامی رنگ دئے بغیر 'مارکٹ' کریں. کیا ان کو یہ تشویش لاحق ہوتی ہوگی کہ انکی اتنی "مارکٹ ویلیو" نہیں بنےگی اور خاطر خواہ قبول عام نہیں ملے گا.
مثلا کیا یہ پیٹریارککل اور میٹریارککل اور سوشل کانٹریکٹ تھیوریاں گڑتے وقت ان حضرات نے اسکو شریعت قرار دیا تھا؟ اورغلط یا نقائص سے بھرپور ہوتے ہوئے آج بھی پڑھائی جاتی ہیں تو اتنی اہمیت اور پذیرائی کیا کم ہے؟
اس طرح کی pick and choose کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم شریعت کے ساتھ بھی موجودہ دور کے وکیلوں کی طرح سلوک کرنے لگ جاتے ہیں جو مختلف statutes and precedence کو الٹتے پلٹتے ہوئے اپنے خلاف حوالوں کو نظرا نداز کرتے ہوئے صرف اپنے حق میں دلائل ڈھونڈھتے رہتے ہیں PLD میں 20 حوالے خلاف ہوں تو ایک تو مل ہی جائیگا اس کو نوٹ کر لیتے ہیں اور جج کے سامنے ایسے پیش کرتے ہیں جیسے بس کتابوں میں صرف یہی متعلق حوالہ تھا اور باقی ساری چیزیں غیر متعلق.......پورا قرآن ختم کرتے ہوئے ان میں سے کسی آیت پر غور کیلئے نہیں ٹہرا جاتا.....لیيظهره علی الدین کله.....والذين ان مكناهم في الارض...کنتم خیر امة اخرجت للناس....ان اقيموا الدين ولا تتفرقوا فيه.....ان الحكم الالله.....(لتحكم بين الناس بما اراك الله....واجعل لي من لدنك سلطانا نصيرا)______لیکن out of context ان کو ...."انتم اعلم بامور دنیاکم" کی حدیث ضرورنظرآئیگی.....یہ حقیقت ذہن میں رکھ کر پڑھینگے تو آپ پر واضح ہوتا جائیگا کہ مولانا مودودی کی "تعبیر" میں نہیں بلکہ وحید الدین خان صاحب اور جاوید احمد غامدی صاحب یا ان جیسے اور حضرات کی "فکر" میں ہی غلطی ہے.
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کو لے کر بھیجے گئے جس کو اللہ تعالی نے خود کامل دین کہا، جس کو اپنی بیش بہا نعمت سے تعبیر کرتے ہوئے ہمارے لئے پسند کیا اور اسکے علاوہ کسی بھی نظام کو ناقابل قبول قرار دیا اور جس پورےدین کےبارے میں قبر میں اور یوم الحساب پوچھا جائیگا اور اسی پر کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ ہوگا، کیا وہ اسقدر ناقابل فہم اور بے وقعت ہے کہ پوری مسلم امت کو اسکی بعثت سے لیکر آج تک درخور اعتنا نہ سمجھ کرایک دو حضرات کی آراء پر موقوف کر کے انکی کم فہمی یا کج فہمی کی نذر کیا جائے؟(اس بات کا ابوالحسن علی ندوی کی تنقید سے موازنہ نہیں کیونکہ مولانا مودودی نے عام لوگوں میں بنیادی اصطلاحات کی محدود فہم کی بات کی تھی جسکی حقیقت اب بھی ہمارے سامنے ہے اسکے برعکس یہ موجودہ فکر اصل میں ہے ہی سلف صالحہ سے موجودہ دور کے قابل ذکر علماء کی"کم فہمی" یا "غلط فہمی"کے متعلق) اور ایسا کرنے والے کیا خود اس نظام کو اپنی استطاعت کے مطابق بے وقعت کر نے کی کوشش نہیں کر رہے.....کیا محض اس دلیل سے کہ دنیا میں اب کچھ اور چل رہا ہے کسی چیز کو شرعی جواز دینے کو justify کیا جا سکتا ہے؟ غلط کاریاں اور باطل نظریات تو ہر دور میں غالب رہی ہیں تو کیا وقت کا نبی ان کی تائید کیلئے بھیجا جاتا یا اس کی اصلاح کیلئے, اور اگر تائید ہی کرنی تھی تو بھیجنے کا مقصد ہی کیا؟ بس جو لوگ کر رہے ہیں انکو کرنے دیں....
وقتی طور پر حالات کے جبر سے مغلوب ہو کر ایک چیز کو وقتی ہی طور پر جائز کہنا....اس وقت تک جب تک حالات ناسازگار ہوں....خود شریعت کے ہی اصولوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے..لیکن اسکو مکمل جواز کے طور پر لینا ایک بالکل ہی الگ اور خطرناک چیز ہے.......جتنی جتنی "مغربیت" یا "جدیدیت" موجودہ دور میں ہمارے لئے "ناگزیر" ہے اس کو اسی ضرورت کی حد تک رکھ کر لیا جا سکتا ہے....اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ مستقبل میں اصلاح کی امید رکھی جا سکے گی،اور دین اپنی اصل شکل میں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہوگا. اور اسکو اپنی اصل شکل میں نفاذ کی جدو جہد بھی ہوگی...اسکے برعکس کسی غلط چیز کو مستقل سند جواز دے کر مستقبل میں اصلاح کی امید ہی مسدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.
قومی ریاست کے تصور کو شریعت سے ثابت کرنا خود ایک عجیب سی بات ہے....جس رسول نے روم کے صہیب، فارس کے سلمان، حبشہ کے بلال کو ایک کلمے کی بنیاد پر اکھٹا کیا اس سے یہ ثابت کرنا کہ سلمان بلال اور صہیب( رضی اللہ عنہم اجمعین ) کے پاسپورٹس پر ویزے لگائینگے تو مدینہ میں آنے دیا جائیگا ورنہ نہیں اور آنے کے بعد بھی اتنی مدت بعد وہ دخول و خروج کی requirements پوری کرینگے تب وہ جائز شہری تصور ہونگے ورنہ deport کئے جائینگے....لا حول ولا قوة...کیا فرضی لکھیروں سے بنی قومیت، نظرئے اور عقیدے پر بنی قومیت سے زیادہ مضبوط ہے....محظ لکھیروں سے تو زبان، رنگ اور نسل کی بنیاد زیادہ مضبوط ہے...اسی لئے جاپان، چین اور عرب وغیرہ ریاستوں میں زیادہ یکجہتی اور ہم آہنگی ہے.....اسکی بنہ نسبت اسلامی نظریے سے دوری کی وجہ سے پاکستان کی فرضی لکھیروں سے بنی قومیت بھی کمزور پڑ رہی ہے اور ہر صوبے کو پاکستان سے زیادہ اپنے صوبے کی پڑی ہے اور معمولی اختلافات پر پاکستانی سے لوگ پنجابی، سندھی پختون اور بلوچ بن جاتے ہیں... اسطرح ریاست کی سب سے مضبوط بنیاد نظریہ ہے اور نظریوں میں ہمارا ایمان ہے کہ اسلام ہی سب سے بہتر اور قابل عمل اور یکجا رکھنے کی صلاحیت رکھنے والا نظریہ ہے جو نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو یکجا رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے....جو کہ محض کتابوں تک محدود نظریات کی طرح نہیں بلکہ عملا ثابت شدہ حقیقت ہے.
"ان هذہ امتکم امة واحدة و انا ربكم فاعبدون"....كنتم خير امة اخرجت للناس.....مختلف قومی ریاستوں میں بٹھے ہوئے دشمنوں کی نہیں بلکہ بھائیوں کی امت....انما المؤمنون اخوة.
ان حالات میں کہ جب ترقیافتہ ممالک خود قومی ریاستوں کو علاقائی آمد و رفت اور تجارتی آزادی کے معاہدات کے زریعے ایک دوسرے سے ملا کر دنیا کے فاصلوں کو مٹارہے ہیں اوران فرضی لکھیروں کے نقصانات کو کم سے کم کر ریے ہیں ہمارا اس کو مضبوط کرنے اور ستم بالائے ستم انکو شرعی جواز دینے کے درپے ہونا شریعت کے آفاقی کردارسے امت مسلمہ کے تصور سے اور موجودہ دور میں قومی ریاستوں کے بارے میں جدید رجحانات کی حقیقت سے بھی لاعلمی پر مبنی ہے.
مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے ایک رائے بلا تحقیق دی اور علامہ اقبال رحمہ اللہ نے خلاف عادت اس پر نام لیکر سخت مواخذہ کیا اور انکے حامیوں کی یا انکی بھی یہی وضاحت بعد میں آئی کہ یہ انہوں نے شریعت کے اصول کی نہیں بلکہ موجودہ دور کے ٹرینڈ/چلن کی بات کی ہے جو کہ انکے مرتبے کے علماء کے بارے میں زیادہ قرین انصاف ہے...ایسا نہ بھی فرض کیا جائے تو دین میں ایسی رائے کی کوئی حیثیت نہیں جسکی پشت پر واضح شرعی دلائل نہ ہوں چاہے وہ کسی بھی فقیہ کی ہو۔.....واللہ اعلم

Comments

Click here to post a comment