ہوم << بانکے میاں اور آسیب زدہ گھر - آفاق احمد

بانکے میاں اور آسیب زدہ گھر - آفاق احمد

ایک محلے میں ایسا مکان تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس پر جنات کا سایہ ہے، کوئی خاندان بھی ایک دوہفتے سے زیادہ نہ ٹھہر پاتا اور محلہ چھوڑ کر بھاگ جاتا، مکان خالی ہوئے کافی عرصہ گزر چکا تھا لیکن کرائے پر چڑھنے میں نہ آتا تھا۔
ایک چھڑا چھانٹ پِھرتا پِھراتا اس محلے میں آپہنچا، سستی رہائش کی تلاش میں سرگرداں جوتیاں چٹخا رہا تھا لیکن بیل منڈھے چڑھنے میں نہ آتی تھی، اس مکان کر دیکھ کر اور اس کا کم کرایہ سن کر اس کی باچھیں کِھل اٹھیں. محلے داروں نے بہتیرا سمجھایا کہ میاں! یہاں آسیب کا سایہ ہے، تم جوان جہان آدمی ہو، کیوں اپنی زندگی داؤ پر لگاتے ہو لیکن اس بے خانماں و خراب آدمی کے لیے بےچھت رہنے سے زیادہ بڑا آسیب کوئی نہ تھا۔ چنانچہ بوریا بسترا سمیت اس مکان میں رہائش پذیر ہوگیا۔
پہلی رات تھی کہ گویا طوفانِ سنگ، پوری رات سنگ باری ہوتی رہی اور کھڑکیوں، دروازوں سے سنگ ایسے ٹکراتے رہے کہ گویا طبلِ جنگ بج رہا ہو، بانکے میاں نے سر تکیے میں دیا اور نیند کی وادی میں یہ جا وہ جا۔ تین راتیں سنگ باری ہوتی رہی لیکن میاں ٹس سے مس نہ ہوئے کیونکہ انھیں یہ سگ باری یعنی کتے بھونکنے کی آوازوں کی نسبت زیادہ دل نشیں معلوم ہوتی رہی۔
چوتھی رات خاموشی کا قفل رہا اور پانچویں رات سنگ باری ترقی کرتے کرتے خشت باری یعنی اینٹ باری میں مبدل ہوگئی لیکن بانکے میاں بھی اعصاب پر گویا کوئی خاص لیپ کروا کر ہی اس محلے میں ٹپکے تھے، تین راتیں خشت باری کا سماں بندھا رہا اور چوتھی رات پھر خاموشی کا قفل۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جنات بھی باہم دست وگریباں ہیں کہ کس دیوارسے سر زخما رہے ہیں۔
اس کے بعد چوب باری شروع ہوئی، ہر لمبائی اور موٹائی کی لکڑیاں ہوا میں میزائل کی طرح تیرتی ہوئی آتیں اور اہنے اپنے ہدف کو تختہ مشق بناتیں لیکن جنات کی یہ مشق بھی رائیگاں گئی۔ اب خاموشی کی قفل والی راتیں بھی بڑھ کر تین راتوں پر استوار ہوئیں اور پھر ایک عجب بارش شروع ہوگئی، یہ آلو باری تھی جس نے مسلسل تین راتیں توپ و تفنگ کا کام کیا لیکن بانکے میاں ہی کیا بانکے ہوئے کہ وہ ان بےضرر اور بے ہنگم آٓلوؤں سے شکست تسلیم کرلیتے۔
محلے والے الگ حیران تھے کہ یہ کیسی انسانی روپ میں مخلوق ہے جس پر کسی قسم کا اثر اور خوف ہی نہیں، اتنے متاثر ہوئے کہ سب ایک دن وفد بنا کر بانکے میاں کے گھر پہنچ گئے۔ وہاں عجب منظر تھا، صحن میں خشت باری والی اینٹوں کا چولہا بنا کھڑا تھا جس کا فرش سنگ باری والے پتھروں سے لیس تھا اور چوب باری والی لکڑیاں سلگتے سلگتے آگ اگلنے میں مصروفِ عمل تھیں اور ان کے اوپر ایک برتن میں آلو باری والے آلو مزے سے پکنے میں محو تھے۔ محلہ دار تو کیا جنات بھی یہ منظر دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے کہ الٰہی! یہ کیا ماجرا ہے کہ ایک کمزور اور منحنی سا انسان بھی بھلا خوف کو ایسے شکست دے سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والی مشکلات کو اپنے حق میں ایک پرلطف دعوتِ شیراز میں تبدیل کرسکتا ہے۔
اور پھر جب مالِ غنیمت میں حاصل کیے ہوئے آلو، کلونجی، نمک مرچ، پیاز کے مصالحے سے لیس ہوکر بانکے میاں کی مسکراہٹ اور ہاتھ کے ذائقے سے آشنا ہوتے ہوئے محلہ داروں کے سامنے پیش ہوئے تو وہ بھی اش اش کر اٹھے اور بتانے پر مجبور ہوئے کہ یہ سب شرارت بمنزلہ خباثت ان سب محلہ داروں کا ہی کیا دھرا تھا۔ یہ تفننِ طبع کی مشق کئی ادوار سے جاری تھی اور اس کا سبب مالک مکان سے اپنا کینہ اور بغض نکالنا تھا لیکن بانکے میاں کی ہمت و استقامت نے تمام کیے کرائے پرپانی پھیر دیا۔ سب محلہ دار شرمندہ اور اپنی گزشتہ حرکتوں پر نادم تھے۔ بانکے میاں مسکراتے رہے، سنتے رہے، سر دھنتے رہے۔
پس بانکے میاں نے یہ ثابت کردیا کہ مشکلات، پریشانیاں، رکاوٹیں اور درشت رویے وہ خام مال ہیں جس سے انسان اپنی مرضی کی دنیا تعمیر کرسکتا ہے، اپنی مرضی کا رس کشید کرسکتا ہے۔ یہ ایسی بادِ مخالف ہے جو انسان کو مزید بلند پرواز عطا کرسکتی ہے، بس ضرورت ہمت و استقامت اور مثبت عمل کی ہے۔

Comments

Click here to post a comment