ہوم << زمانے کا علم اور حاملین مذہب - جمیل داوڑ

زمانے کا علم اور حاملین مذہب - جمیل داوڑ

سیرت کی کتابیں گواہ ہیں کہ جب آقاﷺ کو دین کی دعوت اور ترویج و اشاعت کا کام سپرد کیا گیا تو آپﷺ نے کسی خاص پلیٹ فارم تک محدود رہنے کے بجائے ہر اس فورم کا انتخاب کیا جہاں دین کی دعوت ممکن تھی. کوہ صفا پر چڑھنا ہو یا منڈیوں میں وارد ہونا، تہواروں میں شرکت ہو یا حج کے موقع پر ملاقاتیں، دعوتی خطوط کی لکھائی ہو یا وفود کی روانگی، جہاں کہیں بھی آپ ﷺ کو اپنے دعوتی کام کی انجام دہی ممکن نظر آئی، آپ نے کوئی کسراٹھا نہ چھوڑی، ہر ممکن موقع کو بھرپور انداز میں استعمال کرکے اپنا فریضہ سرانجام دیا.
قرآن مجید کا حکم بھی یہی ہے کہ (اے مسلمانو) جس قدر طاقت تم سے بن پڑے ان ( کفار ) کے مقابلے کے لیے طاقت تیار رکھو. حصول طاقت کے جہاں اور بہت سے ذرائع ہیں، وہاں ایک ذریعہ الیکٹرانک و پرنٹ اور سوشل میڈیا بھی ہے. میڈیا آج کے دور میں سب سے بڑی طاقت ہے جس نے معاشرے کے دل ودماغ کو اپنے ہاتھوں میں جکڑا ہوا ہے. میڈیا چاہے تو دن کو رات اور رات کو دن بنا کر دکھائے. سفید کو کالا اور کالے کو سفید کرنا اس کے لیے لمحوں کا کام ہے. چاہے تو چند ہی لمحات میں کسی کو بام عروج پر پہنچائے اور چاہے تو تنزلی اور بدنامی کی اتاہ گہرائیوں میں گرادے. میڈیا کی طاقت اور اس کے اثر ونفوذ سے ایک آندھا ہی انکار کرسکتا ہے.
اسلام پسند طبقہ میڈیا سے اس لے آنکھیں چراتا ہے کہ اس کے خیال میں میڈیا فحاشی و عریانی اور برائیوں کا مرکز ہے حالانکہ نبی کریم ﷺ کی زندگی بتاتی ہے کہ آپ ﷺ نے برائیوں کے موجودگی کے علی الرغم دعوتی سلسلہ جاری رکھا. تاریخ بتاتی ہے کہ حج کے اجتماعات میں مختلف برائیاں شامل تھیں، یہاں تک کہ ننگا طواف کیا جاتا تھا لیکن آپ ﷺ نے دعوت کا کام برقرار رکھا، تجارتی میلوں میں شراب کباب کی محفلوں کا دور دورہ رہتا تھا. لاکھ عیش کوشیوں اور بدمستیوں کے ماحول کے باوجود آپ ﷺ وہاں جاتے تھے اور دعوت کا فریضہ ادا فرماتے تھے. تاریخ بتاتی ہے کہ انھی اجتماعات میں آپ ﷺ کی دعوت سن کر بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے. مدینہ کے مسلمانوں کی اکثریت تو حج کے اجتماعات میں دعوت کے طفیل مسلمان ہوئی تھی.
نوجوان اہل علم، دانشوران، قوم وملت کے وفادران، مدرسہ اور سکول و کالج کے گریجویٹس سے مؤدبانہ عرض ہے کہ آخر کب تک آپ میڈیا کو ناسور قرار دے کر اپنا دامن بچاتے رہیں گے؟ کب تک الرجی کا شکار ہو کر آپ کے ہاتھ کانپتے رہیں گے؟ آج کے دور میں نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت میڈیا کر رہا ہے، مغربی و ہندووانہ تہذیب کو زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے. دین کے حوالے سے نت نئے شبہات و اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں. ایسی حالت میں غفلت کی چادر اوڑھ لینا کس طرح قرین انصاف ہو سکتا ہے؟
مجھے یقین ہے کہ ایک دن ضرور آپ انگڑائی لے کر اس میدان کو سب سے بڑا جہاد قرار دے کر قدم رنجہ فرمانے کی کوشش کریں گے، اپنے ریمارکس اور فتوؤں سے رجوع کریں گے لیکن اس وقت کیا فائدہ جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا. آج موقع ہے، کل کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہ ملے گا

Comments

Click here to post a comment