ہوم << رائے شماری سے اٹوٹ انگ تک ( حصہ دوم )-وسعت اللہ خان

رائے شماری سے اٹوٹ انگ تک ( حصہ دوم )-وسعت اللہ خان

557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480
بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کی جانب سے کشمیر کے جبری الحاق کو کشمیری عوام کی توثیق سے مشروط کرنے کی بابت عالمی برادری کو مختلف مواقع پر جو واضح یقین دہانیاں کرائی گئیں۔ان سے بظاہر لگتا ہے کہ کشمیر نہرو کی حد تک بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں تھا۔
کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے جانا وہ رسہ ہے جو بھارت نے گھبرا کے اپنے گلے میں خود ڈالا۔ آج کوئی لاکھ کہے کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے،کشمیر کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں چیٹر سیون کے تحت لازمی نہیں بلکہ چیپٹر سکس کے تحت سفارشی نوعیت کی ہیں اور وہ بھی ساٹھ ستر برس پرانی۔لہٰذا ان پر عمل درآمد لازمی نہیں۔کوئی کچھ بھی کہتا رہے مگر یہ قرار دادیں پشت سے بندھا وہ کنستر ہے جو کشمیر کی ہر ہر بے چینی کے موقع پر بجے گا ضرور۔ جب تک اقوامِ متحدہ کا ریکارڈ موجود ہے کشمیر کی قرار دادیں وہ چھچوندر بنی رہیں گی جو نہ نگلی جائے نہ اگلی جائے۔
کیوں ڈھونڈھ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی
گذشتہ کالم میں نہرو اور ان کے اہلکاروں کے کشمیر کے بارے میں انیس سو سینتالیس تا اکیاون بیانات و تقاریر اور خطوط کے اقتباسات پیش کیے گئے۔آج اکیاون سے سن ستاون تک کے بیانات پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ تاریخ کے طلبا مسئلہ کشمیر کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے یہ تاریخی مواد بھی ذہن میں رکھ پائیں۔
بارہ ) ہم نے کشمیریوں اور اقوامِ متحدہ سے جو وعدہ کیا ہے اس پر کل بھی کاربند تھے اور آج بھی ہیں۔ یعنی جو فیصلہ کرنا ہے کشمیریوں نے کرنا ہے ( بھارتی پارلیمان میں وزیرِ اعظم کا بیان مورخہ بارہ فروری انیس سو اکیاون )۔
تیرہ ) میں حکومتِ بھارت کی جانب سے یقین دلاتا ہوں کہ کشمیر میں آئین ساز اسمبلی کے قیام کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کی بابت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی راہ میں حائل ہو ( مورخہ انتیس مئی انیس سو اکیاون کو سلامتی کونسل میں بھارت کے مستقل مندوب راجیشور دیال کا خطاب )۔
چودہ )گیارہ جون انیس سو اکیاون کو نہرو جی سے پریس کانفرنس میں سوال ہوا کہ اگر کشمیر کی مجلسِ قانون ساز بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کرتی ہے تب کیا ہوگا ؟ نہرو جی نے کہا ’’ ہم نے مکمل واضح کردیا ہے کہ کشمیر اسمبلی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے کسی فیصلے کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں بنے گی‘‘۔
پندرہ ) یہ سمجھنا درست نہیں کہ کشمیر بھارت یا پاکستان کے لیے کوئی انعام ہے۔ایسے لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کشمیر کوئی بیچنے خریدنے والی جنس نہیں۔اس کی اپنی شناخت ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ صرف وہاں کے عوام کر سکتے ہیں ( نہرو جی کا آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب مورخہ چھ جولائی انیس سو اکیاون )۔
سولہ ) حکومتِ بھارت نہ صرف یہ اصول تسلیم کرتی ہے کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق برقرار رکھنے کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کے تحت رائے شماری کے آزاد و غیر جانبدار جمہوری طریقے سے ہونا ہے بلکہ بھارت اس عمل کے لیے جتنی جلد ممکن ہو فضا سازگار بنانے کی کوشش بھی کر رہا ہے (اقوامِ متحدہ کے ایلچی برائے کشمیر کے نام بھارتی وزیرِ اعظم کا خط مورخہ گیارہ ستمبر انیس سو اکیاون )۔
سترہ ) اس ( کشمیر ) کے وارث کشمیری عوام ہیں۔اگر وہ ہم سے کہتے ہیں کہ واپس چلے جاؤ تو ہم بلا تامل لوٹ جائیں گے۔ہم ہی یہ معاملہ اقوامِ متحدہ میں لے کر گئے اور اس کے پرامن حل کے لیے اپنا وچن دے چکے۔ایک عظیم قوم کے طور پر ہم اپنے وعدے سے کیسے پھر سکتے ہیں۔ (بھارتی وزیرِ اعظم کا بیان مورخہ دو جنوری انیس سو باون )۔
اٹھارہ ) اگرباقاعدہ رائے شماری میں عوام فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو ہم یہ فیصلہ بصد دکھ قبول کر لیں گے۔ہم ان کے خلاف فوج نہیں بھیجیں گے۔اگر ضروری ہوا تو اس کے لیے آئین میں ترمیم بھی کر لیں گے ( مورخہ چھبیس جون انیس سو باون کو وزیرِ اعظم کا بھارتی پارلیمنٹ میں بیان )۔
انیس ) میں یہ واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے مستقبل کا حتمی فیصلہ بالاخر کشمیری عوام کی مرضی کرے گی۔اس معاملے میں پارلیمنٹ (بھارتی پارلیمان)کی مرضی یا خیرسگالی کی اہمیت نہیں۔میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ پارلیمنٹ کشمیر کے حل کی طاقت یا صلاحیت نہیں رکھتی بلکہ مراد یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے اس بارے میں کوئی فیصلہ تھوپنا اس پارلیمنٹ کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہوگا۔کشمیر ہمیں بہت عزیز سہی لیکن کسی فیصلے یا بدقسمتی کے سبب یہ بھارت سے الگ ہوتا ہے تو یقیناً ہمارے لیے ایک صدمے کی بات ہوگی۔مگر کشمیر کے عوام جانا چاہیں تو انھیں جانے دیا جائے۔ہمیں انھیں ان کی مرضی کے خلاف اپنے ساتھ نہیں رکھیں گے۔ہم سنگین کے بل پر اپنی مرضی نافذ نہیں کریں گے۔اس بارے میں وہ خود مختار ہیں (پنڈت نہرو کا بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب مورخہ سات اگست انیس سو باون )۔
بیس) کشمیر جیسے بین الاقوامی معاملے کے سلسلے میں پارلیمنٹ کئی اقدامات کر سکتی ہے مگر اس کی بین الاقوامی حیثیت ختم نہیں کر سکتی ( پنڈت نہرو کا بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب مورخہ پچیس مارچ انیس سو تریپن )
اکیس ) انیس سو تریپن تک تو جواہر لعل نہرو صرف یہ کہتے آئے تھے کہ کشمیر میں امن و امان کے حالات سازگار ہوتے ہی اقوامِ متحدہ کے تحت رائے شماری ہونی چاہیے لیکن انیس سو چون میں نہرو کا موقف بدلنے لگا اور ’’ سازگار حالات ’’ کے ساتھ ساتھ بیانات میں ’’ مناسب وقت ’’کا اضافہ بھی ہوتا چلا گیا۔ مثلاً انھوں نے پندرہ مئی انیس سو چون کو کہا ’’ بھارت کشمیر کے معاملے پرعالمی برادری سے کیے گئے وعدوں پر اب بھی قائم ہے اور مناسب وقت آنے پر ان پر عمل درآمد کرے گا‘‘…
بائیس ) اکتیس مارچ انیس سو پچپن کو لوک سبھا میں وزیرِ اعظم کے بیان میں ’’ سازگار حالات’’ اور ’’مناسب وقت’’ کے ساتھ ساتھ ’’ کشمیری عوام کی رضامندی ’’ کی شرط بھی شامل ہو گئی۔
’’ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے پیچیدہ حل طلب تنازعہ ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر کوئی بے جان شے نہیں جو بھارت اور پاکستان بانٹ لیں بلکہ اس کی اپنی روح اور انفرادیت ہے۔چنانچہ کشمیریوں کی خیر سگالی اور رضامندی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا ’’۔
انیس سو ستاون میںسلامتی کونسل نے کشمیر کے بارے میں آخری قرار داد منظور کی تو بھارتی مندوب کرشنا مینن کو وضاحت کرنا پڑی کہ بھارت کو کشمیر کے معاملے میں اپنی بین الاقوامی زمہ داریاں یاد ہیں۔
انیس سو باسٹھ میں بھارت چین جنگ ہوئی۔جنگ کے بعد پاکستانی وزیرِ خارجہ زوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیرِ خارجہ سورن سنگھ کے مابین مذاکرات کے پانچ دور ہوئے۔ پھر پینسٹھ کی جنگ ہوگئی۔اس جنگ کے بعد بھارت میں کشمیر کے لیے اٹوٹ انگ کی اصطلاح کا رواج پڑا اور کشمیری رفتہ رفتہ تنازعے کی بس میں بیک سیٹ پر اور بھارتی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹس فرنٹ سیٹ پر آ گئیں۔اور پھر شملہ سمجھوتے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ اس تنازعے کا ایک ہی مصرف رھ گیا کہ دونوں ممالک کشمیر کے کوڑے سے حسبِ مفاد و منشا ایک دوسرے کی سفارتی و سٹرٹیجک پٹائی کریں۔اس چکر میں سب سے زیادہ پٹائی کشمیریوں کی ہو رہی ہے۔اللہ اللہ خیر صلا… (اس مضمون کی تیاری میں بنیادی مواد سری نگر و جموں کے انگریزی اخبار گریٹر کشمیر سے لیا گیا)۔

حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے