ہوم << مرن والے مر گئے، سانوں کی - عظمی طور

مرن والے مر گئے، سانوں کی - عظمی طور

یہاں جنازہ اُٹھا نہیں اور دیگیں کھڑکنے لگتی ہیں، آنسوؤں کی جگہ مُرغی کی ٹانگ دکھائی دینے لگتی ہے، باآوازِ بلند کُھسر پُھسر ہونے لگتی ہے، قرض اُٹھا کر مُرغِ مسلم پکانے والا اِسی کُھسر پُھسر سے بچنے کے لیے جنازے کی مٹی کاندھوں سے جھاڑ بس ’’پوری پڑ جائے‘‘ کی فکر میں رہتا ہے. دوپٹوں کے پلوؤں سے قمیض کے دامن سے ہاتھ پونچھنے والے ڈکاریں مار کر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دل ہی دل میں چالیسویں اور اس کے درمیان آنے والی’’رسومات‘‘ میں اچھا کھانا پکنے کے یقین کے ساتھ ساتھ حوصلے کی تلیقین کرتے اپنی اپنی دُنیا میں نکل جاتے ہیں. کیا ہی اچھا ہو کہ مُرغی اُڑانے والوں کو اِس بات کا احساس ہو جائے کہ وہ مُرغی نہیں بلکہ اُس قرض اُٹھا کر ’’پوری‘‘ کرنے والے کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں.
ہم کس زمانے میں زندہ ہیں؟ ( یہاں زندہ لکھنے کے لیے لکھنے والے کو بڑے حوصلے سے کام لینا پڑا) کس وقت کا ہاتھ تھام کر چل رہے ہیں؟ یوں تو ہم ترقی کی تعلیم کی بات کرتے ہیں لیکن بہت سے ایسے لوگ اب بھی اِس دور میں بھی ان سب چیزوں کو معیوب نہیں گردانتے، سب چُپ چاپ منہ تکے جاتے ہیں، کوئی نہ تو انسان کے گھمنڈ میں آ کر بنائے گئے اِس نظام کو غلط کہتا ہے نہ ہی اس سے بائیکاٹ کرنا چاہتا ہے.
ہم کیوں نہیں سوچتے کہ یہ روایت جو مرنے والوں کے ساتھ مر جانے والوں کےلیے اذیت ناک ہے، اسے روکا جائے، کیوں قرض لے کوئی، کیوں کوئی کُھسر پُھسر سے پچنے کی خاطر خود کو قبرستان میں چھوڑ آئے، کیوں ہم بغیر کھائے پیے میت والے گھر سے نہیں اُٹھ سکتے ( اور یہاں تو ہمیں شادی پر سلامی دینے کے بعد پیسے پورے کرنے کی’’روایت کی پابندی‘‘ بھی نہیں کرنا ہوتی ) کیوں ایسا کرنا ہمیں ممکن نہیں لگتا؟ کیوں اِس معاملے میں ہم راویات کی پاسداری اتنی سختی سے کرتے ہیں؟؟ کیوں ؟؟ کیوں؟؟
مانگی تھی ایک بار دُعا ہم نے موت کی
شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم
اَلّٰلُھُمَ اَعِنّیْ عَلٰی غَمَرٰتِ اْمَوْتِ وَسَکَرَاتِ الْمَوْت
’’اے اللہ ! موت کی سختیوں اور بے ہوشیوں میں میری مدد فرما. آمین‘‘