ہوم << خوشبو کا سفر - آفاق احمد

خوشبو کا سفر - آفاق احمد

پُتر! خوشبوئیں قید نہیں کی جا سکتیں، یہ تو پھیلتی رہتی ہیں اور اپنا راستہ خودبخود بناتی رہتی ہیں۔
پھول کے رنگ بے کار معلوم ہوتے ہیں، اگر ان میں خوشبو موجود نہ ہو۔
اسی طرح ہر اچھی بات کے رنگ تب نکھرتے ہیں جب اسے ہر سُو پھیلایا جائے۔
خوشبوؤں سے کشید کی ہوئی بات ہے کہ ہر اچھی بات پھیلانا بھی صدقہ ہے۔
ٓاچھائی میرے اندر رہے اور اسے باہر نکلنے کا راستہ نہ ملے، اس پھول کی مانند ہے جس میں رنگ تو ہوں لیکن خوشبو نہ ہو۔
دینو بابا کی باتیں ہم سب کے دلوں پر ایسے اثر کر رہی تھیں گویا سوکھی مٹی بارش کی پہلی بوندوں سے تراوٹ پا رہی ہو اور اس سوندھے پن کی بھینی بھینی خوشبو ہر سو پھیلتی جار ہی ہو۔
میں جدید تعلیم سے آراستہ ایک پی ایچ ڈی نوجوان، بھانت بھانت کی یونیورسٹیوں سے پڑھا، دیس دیس پھرا لیکن جو باتیں دینو بابا کی زبانی سنیں، اس سے دریائے ٹیمز کی موجیں بھی نا آشنا تھیں۔
میں جو دنیا کے علوم میں مہارت حاصل کرکے نازاں تھا، وہ ایسے شخص کی باتوں سے مات کھاگیا جو اپنے شہر سے بھی کبھی باہر نہ نکلا تھا۔
میں بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ، سچل سر مست رحمۃ اللہ علیہ، بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی آدرش اپنے من میں محسوس کررہا تھا۔
بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ، اما م غزالی رحمۃ اللہ علیہ اور جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی فکر کی خوشبوؤں سے معطر معطر ہو رہا تھا۔
آج میں شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کی رومی رحمۃ اللہ علیہ کو عشق اور علم کی سمجھائی باتیں سمجھ رہا تھا۔
ایک سمندر تھا جس میں میرا تخیل غوطے لے رہا تھا۔
میں شاداں و فرحاں۔
جس خوشبو سے میں معطر تھا، وہ اوروں تک بھی تو پہنچانی تھی۔
علی! والدین سے اونچی بات نہیں کرتے، پہاڑی چشمے کے شور اور سمند ر کے سکون کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ سمندر کمتر ہے۔
گڑیا! نماز سکون سے پڑھتے ہیں، نماز سے پہلے ایک لمحے کا احساس تو کرکے دیکھو کہ میں اللہ کے سامنے کھڑی ہوں اور اللہ مجھے انتہائی محبت سے دیکھ رہا ہے۔
فیصل! ہمت نہیں ہارتے، عروج حاصل کرنے کے لیے بار بار کوشش کرنی پڑتی ہے، کامیابی کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے کئی با ر گر کر اٹھنا پڑتا ہے۔
واہ! آج تو بہت خوب کھانا بنا ہے، میری بیگم کے ہاتھ کے پکائے کا ذائقہ تو بڑھتا ہی جارہا ہے۔
میں نے چار بجے کا وقت دیا ہے، میں ان شاء اللہ پورے چار بجے ہی پہنچوں گا، کسی کو انتظار کی زحمت کیوں دوں؟
طنز کے الفاظ کیا کمال کے میرے ذہن میں آئے لیکن روک لیے، اس کا دل نہ ٹوٹ جائے۔
کرمو کی غلطی تو بہت بڑی ہے لیکن اس کی گذشتہ خدمات کے پیشِ نظر درگزر کرتا ہوں۔
اس شخص سے بہت الجھن محسوس ہوتی ہے ہمیشہ مجھے، لیکن خوشبوؤں سے کشید کی ہوئی بات ہے کہ مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرا دینا بھی صدقہ ہے، اور میں نے نہایت بشاشت کے ساتھ مسکراتے ہوئے اسے سلام کیا اور اس کے چہرے پر خوشگوار حیرت کے ساتھ مسکراہٹ پھیل گئی۔
میں اب کبھی اس سے بات نہیں کروں گا، اگر وہ مجھ سے بے رخی کرے گا تو میں اس سے بڑھ کر بے رخی کروں گا، لیکن خوشبوؤں سے کشید کی ہوئی بات ہے کہ جو مجھ سے کٹے، میں اس سے جُڑوں۔
آج خوشبوئیں پھیلاتے پھیلاتے میں خود بھی انتہائی معطر ہوں۔
کیا آپ بھی محبت، چاہت، حکمت، اختصار کے ساتھ خوشبو پھیلانے والے بنیں گے؟
معلوم تو ہوگا کہ پھول پھول مل کر خوبصورت گلدستہ بنتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment