ہوم << تاریخ کو اور گدلا مت کریں - محمد ذیشان اقبال

تاریخ کو اور گدلا مت کریں - محمد ذیشان اقبال

ذیشان اقبال گوئبلز کے پیروکاروں کےلیے پہلے سے ہی کہا گیا ہے کہ یہ ایجنڈا کو لے کر آگے چلنے میں سب سے منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ ماس کیمونیکشن کی ڈگری کے دوران ایجنڈا سٹینگ تھیوری پڑھی۔ اس وقت چونکہ وہ سیلبس کا حصہ تھی اس لیے نہ سمجھ آئی اور نہ ہم نے کوشش کی مگر اس کی سمجھ 17 اگست کو ایک ہی دن میں آگئی.
17 اگست 1988ء پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا دن تھا۔ مگر جب یہ دن آیا تو غیر جانبداری اور آزادی صحافت کا رونا رونے والے چینلز خاموش ہوگئے۔ کسی نے جنرل ضیاءالحق کے ساتھیوں سمیت ہوا میں جاں بحق ہونےوالے واقعے کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ یہ رونا رویا جاتا ہے کہ بچوں کو غلط تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور انہیں واقعات کے بارے میں صحیح طرح سے نہیں بتایا جاتا تو یہ جو میڈیا نے مل کر کیا، اس سے بچوں کو سچ خود ہی پتہ لگ جائے گا؟ اگر بات نہیں کریں گے، بحث نہیں ہوگی تو مستقبل میں کیسے ایسی غلطیوں سے بچا جا سکے گا؟ سوشل میڈیا پر بھی اس طبقے کی طرف سے صرف طنزیہ مواد دیکھنے کو ملا۔ ایک طرح سے انتہاپسندی تھی، اگر یہی کام دوسرےطبقے کے لوگ کریں تو انہیں نصحیتیں کرتے نہیں تھکتے کہ میانہ روی کا راستہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔
اس پر مختلف دلائل دیے جاتے ہیں. ایک یہ کہ آمریت اور آمر کے ذکر سے جمہوری نظام کمزور ہوگا تو جناب کیا یہ جمہوریت اتنی کمزور ہے کہ ایک خبر سے بکھر جائے گی؟ اگر آمریت کی وجہ سے نظرانداز کیا گیا تو سب کو کیوں نہیں کیا جاتا؟ پرویز مشرف صاحب کے تو سب بڑھ چڑھ کر انٹرویوز کرنا چاہتے ہیں اور ہر دوسرے دن وہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر ہوتے ہیں کہ رٹینگ اچھی ملتی ہے۔ اگر ضیاءالحق برا ہے تو اس کی سیاسی اولاد بے قصور ہے؟ آمر برے ہیں مگر ان کے ساتھ چلنے، بلانے اور ان کے ساتھ معاہدے کرنے والے اچھے ہیں؟ یہ کمزور پیمانے اور کھوکھلے ضابطے جتنے بھی حاوی ہوجائیں، نظام کو مضبوط نہیں کر سکتے، اس پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس سے اور کچھ ہونہ ہو کم ازکم میڈیا اپنی اہمیت کم ضرور کر رہا ہے کہ کیسے اس کے لیے اصول اہم ہیں نہ ملکی تاریخ بلکہ پسند و ناپسند صحافتی اصولوں پر غالب آ چکی ہے۔
پہلے ہی میڈیا کو چند بڑے شہروں کا نمائندہ کہا جاتا ہے تو کیا اب یہ چند لبرلز کی مرضی کی کوریج کرکے ایک مخصوص کلاس کا نمائندہ بن جائے گا؟ اگر ملک توڑنے کے ذمہ دار ایک کردار کی سالگرہ اور برسی سرکاری خزانے سے منائی جاتی ہے۔ آئے روز پرویزمشرف کو ٹی وی چینلوں پر بٹھا کر ریٹنگ حاصل کی جاتی ہے، تو ضیاء الحق سے ایسی نفڑت کیوں. جرنلزم کے ایک ادنی طالب علم ہونے کی وجہ سے میڈیا کے اس رویے اور بدنام ہونے کی تکلیف ضرور ہوتی ہے۔ ٹی وی چینلز اپنا سچ نہیں بنا سکتے، ان کا کام رپورٹ کرنا ہوتا ہے اور اگر اس میں وہ کوئی ڈنڈی مارنے کی کوشش کرتے ہیں تو سچ کچھ دیر کےلیے چھپ جاتا ہے مگر چونکہ سچ کی قوت اتنی زیادہ ہے کہ وہ سامنے آ کر رہتا ہے، اس لیے یہ کوشش بےکار رہتی ہے. صحافتی شعبے کے لوگ ماریں کھاتے ہیں۔ دن رات ایک کرتے ہیں۔ نہ انہیں گھر والوں کے ساتھ گزارانے کو اتوار ملتا ہے اور نہ ہی کسی قومی تہوار پر وہ گھر جا سکتے ہیں۔ کئی کئی ماہ تنخواہیں نہیں ملتیں، شعبے میں موجود ہر چوہدری کی باتیں الگ برداشت کرنی پڑتی ہیں تو ان کے اتنا کچھ سہنے کا بنیادی تقاضا ہے کہ ان کی قربانیوں کی عزت ضرور ہو۔ ان کی محنت اور کاوش کو مفادات کی گالی سےگدلا نہ کیا جائے۔