ہوم << برصغیر میں حدیث و سنت پر علمی و تحقیقی کام کا جائزہ - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

برصغیر میں حدیث و سنت پر علمی و تحقیقی کام کا جائزہ - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

برصغیر پاک و ہند میں اسلامی علوم کی آبیاری کی ایک تابناک تاریخ ہے جس میں حدیث و سنت پر کیے گئے علمی و تحقیقی کام کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اس خطے میں دینی علوم کی جو روایت پروان چڑھی، وہ محض تقلید پر مبنی نہیں بلکہ اجتہاد، تحقیق، تنقید، اور تدقیق کی نہج پر استوار تھی۔

اگرچہ برصغیر میں اسلام کی آمد ابتدائی صدی ہجری میں ہو چکی تھی، لیکن حدیث و سنت کے باقاعدہ تدریسی و تحقیقی مراکز کا قیام بعد کے ادوار میں عمل میں آیا، خصوصاً مغلیہ دور اور اس کے بعد کے عرصے میں۔ اس تناظر میں برصغیر کے محدثین، فقہاء اور علما نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے، وہ نہ صرف مقامی علمی روایت کا حصہ بنے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کا اثر و رسوخ محسوس کیا گیا۔ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حدیث کا علم صرف روایت کا مجموعہ نہیں بلکہ فہمِ دین، استنباطِ احکام، اور سیرتِ رسول ﷺ کے عملی اطلاق کی بنیاد بھی ہے۔

برصغیر میں حدیث کے علم کو یہ جامع حیثیت دی گئی، اور یہاں کے علماء نے صرف روایت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ درایت، نقد، جرح و تعدیل، اور اصولِ حدیث کے میدانوں میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ ابتدائی دور میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (1551–1642ء) کا نام سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ انہوں نے عربی و فارسی میں کئی اہم کتب تصنیف کیں، جن میں "اشعة اللمعات" (شرح مشکوٰۃ المصابیح) کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے برصغیر میں اصولِ حدیث اور فہمِ سنت کی باقاعدہ تدریس کا آغاز کیا۔ ان کی خدمات نے بعد کے اہلِ علم کے لیے راہ ہموار کی اور ہندوستان میں حدیث کے علم کو رواج بخشا۔ انہوں نے عربی مدارس کی طرز پر حدیث کی باقاعدہ تدریس کے لیے ادارہ جاتی بنیاد رکھی، اور انہیں بجا طور پر "امام المحدثین" کہا جاتا ہے۔

اٹھارویں اور انیسویں صدی میں یہ روایت مزید مستحکم ہوئی۔ شاہ ولی اللہ دہلوی (1703–1762ء) نے حدیث و سنت کی تفہیم میں ایک نیا باب کھولا۔ ان کا علمی مقام محض محدث یا مفسر کے طور پر نہیں بلکہ ایک عظیم مصلح اور مفکر کے طور پر بھی مسلم ہے۔ انہوں نے حدیث کی تدریس کو قرآن فہمی، فقہی اجتہاد، اور امت کی فکری و عملی اصلاح سے جوڑا۔ ان کی مشہور تصانیف "حجۃ اللہ البالغہ" اور "الانصاف فی بیان سبب الاختلاف" اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ سنت و حدیث کو محض فقہی و روایتی بنیادوں پر نہیں بلکہ ایک زندہ معاشرتی اور فکری حقیقت کے طور پر دیکھتے تھے۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا عبدالحی لکھنوی اور مولانا انورشاہ کشمیری جیسے جلیل القدر علماء نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ انور شاہ کشمیری (1875–1933ء) کو خاص طور پر علمِ حدیث میں مہارت، فہم، اور تنقیدی بصیرت کے اعتبار سے عالم اسلام میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ ان کی تدریسی خدمات دارالعلوم دیوبند کے پلیٹ فارم پر انجام پائیں اور انہوں نے بخاری شریف کی شرح میں جو نکات پیش کیے، وہ آج بھی حدیث فہمی کے باب میں ایک روشن مثال ہیں۔

دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ، اور ندوۃ العلماء لکھنو جیسے ادارے حدیث و سنت کے فروغ میں بنیادی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ ان اداروں نے محض روایتی تدریس نہیں کی بلکہ تنقیدی مطالعہ، حدیث کی سندوں کا تجزیہ، اور اصولی مباحث کے ساتھ اس علم کو وسعت دی۔ مثال کے طور پر ندوۃ العلماء کے مولانا سید سلیمان ندوی نے "سیرۃ النبیؐ" جیسی شاہکار تصنیف میں حدیث و سنت کو جدید فکری اسلوب میں پیش کیا اور اس سے عوام و خواص دونوں کو حدیث کے فہم میں نیا زاویہ ملا۔

پاکستان کے قیام کے بعد بھی حدیث و سنت پر علمی و تحقیقی سرگرمیاں جاری رہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی، دارالعلوم کراچی، اور دیگر دینی اداروں نے اس ورثے کو نہ صرف سنبھالا بلکہ مزید تقویت دی۔ مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا تقی عثمانی اور دیگر معاصر علما نے حدیث کی تدریس، تحقیق، اور تطبیق پر گراں قدر کام کیا۔ خاص طور پر مولانا بنوری کی کتاب "معارف السنن" اور مولانا تقی عثمانی کی شرح "درس ترمذی" اس میدان میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔

جدید علمی تحریکات میں اہل حدیث مکتب فکر کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس مکتب فکر نے براہِ راست قرآن و سنت سے استدلال کی روایت کو فروغ دیا اور صحیحین (بخاری و مسلم) سمیت دیگر کتبِ حدیث کی تدوین، اشاعت اور تحقیق پر گراں قدر کام کیا۔ مولانا نذیر حسین دہلوی، مولانا محمد اسحاق، اور بعد کے علماء نے محدثانہ روایت کو اجتہادی فکر کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، جو برصغیر میں علمِ حدیث کا ایک الگ مگر اہم زاویہ ہے۔

اکیڈمک سطح پر مختلف جامعات مثلاً جامعہ پنجاب، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، اور کراچی یونیورسٹی نے ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح پر حدیث کے موضوع پر متعدد تحقیقی مقالات اور مقالاتِ دانشورانہ (theses) تیار کیے جن میں حدیث کی تدوین، جرح و تعدیل، اور معاصر مباحث پر عمدہ علمی مواد شامل ہے۔ ان جامعات کی لائبریریوں میں موجود تحقیقی مواد اس بات کا ثبوت ہے کہ علمِ حدیث صرف دینی مدارس تک محدود نہیں رہا بلکہ جدید علمی اداروں میں بھی اسے باوقار مقام حاصل ہے۔

اس سارے منظرنامے کا جائزہ لیا جائے تو برصغیر میں علمِ حدیث کی روایت نہ صرف تسلسل کے ساتھ جاری رہی بلکہ مختلف ادوار میں نئے زاویوں اور طرزِ فکر کے ساتھ ارتقاء پذیر بھی رہی۔ یہاں کے محدثین نے جہاں حدیث کے ذخیرے کو محفوظ رکھنے میں کردار ادا کیا، وہیں اس کی فہم، تدریس اور تطبیق کے میدان میں بھی اجتہادی بصیرت کا ثبوت دیا۔

نتیجتاً برصغیر میں حدیث و سنت پر ہونے والا علمی و تحقیقی کام محض نقل یا روایت پر مبنی نہ تھا بلکہ اس میں اجتہاد، تنقید، فہم و تدبر، اور امت کی رہنمائی کا جذبہ کارفرما رہا۔ اس نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو دینی و فکری بنیادیں مہیا کیں بلکہ دنیا بھر میں اسلامی علمی روایت کو تقویت دی۔ آج جب کہ علمی دنیا میں جدید ذرائع، تنقیدی سوچ، اور معروضیت کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، برصغیر کا یہ علمی ورثہ ہمارے لیے ایک قابلِ قدر اثاثہ اور رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔