اہل فلاسفہ اور ماہرین نفسیات کے ہاں ہمیشہ سے یہ سوال قابل بحث رہا ہے کہ کیا انسان خارجی عوامل سے متاثر ہوئے بغیر اور تعصب سے آزاد ہو کرفیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟
علم نفسیات کی رو سے انسانی دماغ خارجی ماحول سےآنے والے اشارات کو وصول کرنے والا ایک آلہ ہے، اور بیرونی محرکات کو وصول کرنے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلی کا نام سوچ ہے۔ یعنی سوچ عمل اور رد عمل کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے اور بیرونی محرکات کی عدم موجودگی میں سوچ کا پیدا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ان خارجی محرکات اور ماحول کا اثر فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر بھی پڑتا ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر نفسیات ڈینیل کینامین نے تقریبا بیس کے قریب تعصبات کو دریافت کیا جو فیصلہ کرنے کی صلا حیت کو متاثر کرتے ہیں۔
اہل فلاسفہ نے اس بات پر سیر حاصل بحث کی ہے کہ انسانی سوچ و فکر کا تعلق جبلتوں سے منسلک ہے۔ بقا کی جبلت سب سے مضبوط ہے اور سب سے زیادہ سوچ و فکر کو متاثر کرتی ہے۔ باقی جبلتیں بتدریج مختلف حالات میں انسانی ذہن پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ الغرض انسان کسی اعلی تعلیم یا شعور کی عدم موجودگی میں کہیں خارجی محرکات تو کہیں جبلتوں کا غلام نظر آتا ہے۔ اہل فلاسفہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اعلی فکری شعور کی موجودگی میں انسان ان جبلتوں کی غلامی سے آزاد ہو سکتا ہے۔
ایک طرف اہل فلاسفہ اور ماہرین نفسیات انسان کی فکری کمزوری کا برملا اعلان کرتے ہیں تو دوسری طرف انبیاء اس فکری کمزوری کو دور کرنے کا حل دیتے ہیں. اگر انبیاء کی تعلیمات کو غور سے پڑھا جائے تو یہ احساس ہوگا کہ انبیاء ذہن انسانی کو ہر طرح کی غلامی اور تو ہمات سے پاک کرتے ہیں اور پھر توحید کے درس سے ہر طرح کے تعصبات کو دور کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر طرح کی برائی، گناہ اور فساد جبلتوں کے حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے ہے، مثلا بھوک ایک بنیادی جبلت ہے اور بقائے انسانی کے لیے بے حد ضروری ہے مگر جب یہ حد سے تجاوز کرتی ہے تو لالچ اور ذخیرہ اندوزی کو جنم دیتی ہے۔ انبیاء اسی لیے اپنے اصحاب کے تزکیہ پر بہت زور دیتے تھے تاکہ ذہن انسانی کو عدم توازن سے بچایا جا سکے۔ اس غلامی سے نجات کی اعلی ترین تعلیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ مذہب اسلام نےایک طرف صورت توحید میں ہر طرح کے توہمات کا سدباب کیا تو دوسری طرف جبلتوں کے عدم توازن کو دور کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں پورا تربیتی نظام تشکیل دیا۔ اسی تربیتی عمل کو اصحاب رسول، تابعین اور محقق صوفیاء و مشائح نے آنے والے دور میں جاری و ساری رکھا اور آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
اب فیصلہ ہمارا اپنا ہے یا تو ہم ساری زندگی جبلتوں کی پوجا کریں اور ایک غلام کی سی زندگی گزاریں یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کر کے ہر قسم کے فکری تعصباب سے آزاد ہو کر اعلی حقیقتوں اور اعلی شعورکی طرف اپنی راہیں استوار کریں۔
تبصرہ لکھیے