ہوم << فرقہ واریت اور ہماری الجھتی گتھیاں - عبدالمتین

فرقہ واریت اور ہماری الجھتی گتھیاں - عبدالمتین

فرقہ واریت ایک ایسا زہر ہے جس کا تریاق تقریباً سب ہی کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی اس کارخیر میں بھرپور شریک رہتے ہیں جو خود براہ راست اس مرض کا شکار ہیں. جب کبھی فرقہ واریت کے اجزائے ترکیبی کو زیر بحث لایا جاتا ہے تو ہمارا رویہ کچھ یوں ہوتا ہے جیسے ہمیں اس مرض کی الف ب تک نہیں پتا اور اس کے بعد جب ہمارے ہی کرتوتوں کے نتیجہ میں فرقہ واریت اپنا کام کر جاتی ہے تو ہم کچھ اس انداز سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں جس کی داد دیے بنا ہمارے کمالات کی داستان ادھوری رہ جاتی ہے۔
اس فتنہ سے بیزار کچھ امت کا درد رکھنے والے اس کے حل کی یہ تجویز دیتے دکھائے دیتے ہیں کہ ہمیں ہر قسم کی مسلکی جماعت سے کلیتا علیحدگی اختیار کرنی ہوگی. یہ نکتہ اپنے ظاہری اعتبار سے بہت ہی کارگر اور دل کو چھوتا محسوس ہوتا ہے لیکن ذرا نتیجہ خیزی کی طرف آئیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور دیگر مکاتب فکر کے حامل افراد رہتے ہوں، وہاں ایک ایسی جماعت کی اٹھان ہوتی ہے تو اسے ایک حریف کے طور پر لیا جائے گا اور یہ اقدام فقط کشمکش اور اضطراب کا باعث ہی بن سکے گا اور بس۔
اسی طرح کچھ مصلحین فرقہ واریت کا حل اس صورت کو گردانتے ہیں کہ ہر کس و ناکس وہی موقف اپنائے جو یہ صاحب یا فرقہ پرست اپنائے ہوئے ہیں مثلاً ایک بریلوی یہ کہہ کر فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہ رہا ہے کہ سب کے سب لوگ دعوت اسلامی کے معتقد بن جائیں، اسی طرح ایک دیوبندی یہ کہہ کر اس آگ کو بجھانے کی سعی کر رہا ہے کہ تمام ہی لوگ تبلیغ دین کے لیے رائےونڈ کا رخ کریں اور ایک اہل حدیث یہ کہتے ہوئے کہ سب کے سب رفع یدین کو ارفع و اعلیٰ سمجھیں۔ مذکورہ قسم کی تگ و دو فرقہ واریت کو مزید چار چاند تو لگا سکتی ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں کیونکہ جس قسم کے نعروں سے ہم یہ کام کرنا چاہ رہے ہیں ان کی گونج بسم اللہ کے گنبد تک ہی محدود ہوسکتی ہے، اس سے آگے نہیں، جبکہ ضرورت اس صدا کی ہے جس سے عالم کفر کے دل دہل جائیں اور وہ اپنے آپ کو سمیٹنے کی سی صورت اپنالیں ۔
سو لازم ہے کہ ہم ممکنات کی دنیا میں قدم رکھ کر ان مسائل کا حقیقی تجزیہ کریں اور ابتداء اپنی ذات، اپنے گھر اور اپنی اس بیٹھک سے کریں جس میں ہم اپنے خیالات کا اظہار برملا کرتے رہتے ہیں، کیونکہ فرقہ واریت کا سیلاب اپنے آپ ہی نہیں آیا، یہ ان کاروائیوں کے سبب آیا ہے جو ہم اتحاد کے بند کو توڑنے کے لیے کرتے آرہے ہیں اور جب وہ بند ٹوٹ کر بہنے لگتا ہے تو ہم اپنی چھوٹی چھوٹی کشتیاں لگا کر ایک دوسرے پر الزام تھوپ رہے ہوتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment