600x314

علمائے کرام کا جدید دور میں کردار – ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

اسلام ایک زندہ، فطری اور ہمہ جہت نظامِ حیات ہے، جو قیامت تک کے انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا۔ اس الٰہی نظام کی تفہیم، تشریح، اور تطبیق کا عظیم فریضہ علمائے کرام پر عائد ہوتا ہے۔ یہ کوئی معمولی منصب نہیں، بلکہ ایک ایسا منصب ہے جسے نبی کریم ﷺ نے “ورثۃ الانبیاء” یعنی انبیاء کے وارث قرار دیا۔ یہ وراثت صرف علم کی نہیں بلکہ حکمت، عدل، قیادت، تربیت، دعوت، اور قربانی کی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کا ہر روشن باب علما کی قربانیوں، علمی خدمات اور عملی جدوجہد سے مزین ہے۔

علمائے کرام ہمیشہ سے امت کی فکری قیادت کرتے آئے ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ کی فقہی بصیرت ہو، امام شافعیؒ کی اصولی بنیادیں ہوں، امام غزالیؒ کی فکری جنگ ہو، یا ابن تیمیہؒ کی اجتہادی حکمت عملی ہر دور کے علما نے وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے دینِ اسلام کے فہم کو زندہ رکھا۔ برصغیر کے علما نے اسلام کی بقا اور آزادی کے لیے جو کردار ادا کیا، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے جہاں دین و دنیا کے امتزاج کا شعور دیا، وہیں علامہ اقبالؒ نے فکر و نظر کی ایک نئی جہت فراہم کی۔ دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، جامعہ اشرفیہ، اور دیگر مدارس نے فکری تحریکات کو جنم دیا۔ قیامِ پاکستان ہو یا تحریکِ ختم نبوت، علمائے حق ہمیشہ صفِ اول میں رہے۔ فکر مودودی اور ڈاکٹر اسرار احمد کی دینی بصیرت و خدمات نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

تاہم آج کا دور علمی، فکری، تہذیبی اور ابلاغی محاذوں پر پیچیدہ اور مختلف ہے۔ یہ دور صرف کتابی علم یا مدرسے کی چہار دیواری تک محدود فہم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آج جب نوجوان نسل سوشل میڈیا کی دلفریبی، لبرل فکر کی نرمی، اور مغربی بیانیے کی چمک دمک میں الجھ چکی ہے، تو علما پر لازم ہے کہ وہ نہ صرف فکری بیداری پیدا کریں بلکہ دین کے اصل اور آفاقی پیغام کو جدید زبان اور استدلال کے ساتھ پیش کریں۔

اس وقت ایک بڑا فکری خلا یہ ہے کہ دین کو ایک مکمل، متوازن اور ترقی یافتہ نظامِ حیات کے طور پر پیش کرنے کی بجائے صرف رسمیات اور سطحی امور تک محدود کر دیا گیا ہے۔ نتیجتاً نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اسلام شاید جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ یہ تاثر اسی وقت زائل ہو سکتا ہے جب علمائے کرام اپنے خطبات، تحریرات، دروس اور مکالمات و مقالات میں فکری وسعت، اجتہادی بصیرت، اور حکمتِ دعوت کو اپنائیں۔

آج کے جدید دور میں ایک بڑا مسئلہ معلومات کی بہتات (Information Overload) ہے، جس میں حق و باطل، صحیح و غلط، مستند و غیر مستند سب ایک دوسرے میں خلط ملط ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ہر “انفلوئنسر” کو “عالم” سمجھا جا رہا ہے، اور بے علم افراد دین کی نمائندگی کے منصب پر قابض ہو چکے ہیں۔ اس کا مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جب اہلِ علم خود آگے آئیں، سچائی پر مبنی علمی مواد تیار کریں، اور یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام، اور دیگر پلیٹ فارمز پر بھرپور موجودگی اختیار کریں۔ سادہ زبان، جدید مثالیں، منطقی استدلال اور نرم لہجہ وہ اوزار ہیں جن کے ذریعے دلوں کو جیتا جا سکتا ہے۔

علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ صرف روایتی خطبات یا مناظروں سے آگے بڑھیں۔ وہ ریسرچ پیپرز، تھنک ٹینکس، یونیورسٹی سطح پر ڈائیلاگ، اور عالمی فورمز پر مکالمہ کے میدان میں آئیں۔ اسلامی تعلیمات کو عالمی بیانیے کے مقابل ایک متبادل ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ اس کے لیے بین الاقوامی زبانوں میں عبور، سوشل سائنسز کی فہم، اور اسلام کی روحانی و اخلاقی طاقت کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔

آج امت ایک اور سنگین مسئلے کا شکار ہے، انتشار اور فرقہ واریت۔ اس زہر کا تریاق صرف اور صرف علمائے کرام کے پاس ہے، بشرطیکہ وہ خود اس تعصب سے بلند ہو کر قرآن و سنت کی طرف رجوع کریں۔ امت کی وحدت کو محض نعرے کی حد تک نہیں، بلکہ عملی سطح پر ترجیح بنائیں۔ اگر علما مختلف مکاتبِ فکر کے درمیان علمی و اخلاقی مکالمے کو فروغ دیں، مشترکات پر زور دیں، اور اختلافات کو حسنِ نیت سے قبول کریں تو امت کی صف بندی ممکن ہے۔

مدارس کی دنیا میں بھی تجدید کی اشد ضرورت ہے۔ مدارس میں جدید زبانوں (انگریزی، فرنچ، چینی)، سائنسی فکر، بین الاقوامی قانون، جدید معیشت اور ابلاغی حکمت عملیوں کی شمولیت وقت کا تقاضا ہے۔ اس سے علما جدید دنیا کی نبض کو سمجھ سکیں گے اور اسلامی فکر کو “محفوظ قلعوں” سے نکال کر “عوامی میدان” میں لا سکیں گے۔

علمائے کرام کا ایک اور اہم فریضہ سماجی قیادت ہے۔ غربت، جہالت، ظلم، ناانصافی، عورتوں کے استحصال، بچوں کے حقوق، منشیات، خودکشی، اور دیگر معاشرتی مسائل پر دین کی روشنی میں متوازن اور انسانی حل پیش کرنا بھی علمائے دین کی ذمہ داری ہے۔ اس سے لوگوں کو یہ باور ہو گا کہ اسلام صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ ایک مکمل سماجی، قانونی اور اخلاقی نظام بھی رکھتا ہے۔

موجودہ زمانے میں اسلاموفوبیا ایک منظم مہم کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یورپ، امریکہ اور دیگر غیر مسلم دنیا میں اسلام کو دہشتگردی، انتہا پسندی اور پسماندگی سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس پروپیگنڈے کا علمی، فکری اور ابلاغی جواب صرف علما ہی دے سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ عالمی زبان، علمی اسلوب، اور بین الاقوامی اقدار سے آگاہی رکھتے ہوں۔ یہ وقت کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کا اصل چہرہ رحمت، انسانیت، عدل، اور امن دنیا کے سامنے لائیں۔

اگر علما اپنی علمی میراث، روحانی جرات، فکری پختگی، اور اجتہادی حکمت کے ساتھ آگے بڑھیں، تو یقیناً وہ نہ صرف امت کی بیداری کا ذریعہ بن سکتے ہیں بلکہ انسانیت کو ایک بار پھر اسلام کی چھاؤں میں لانے کا عظیم فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ جمود، سطحیت، تعصب اور محدود دائرہ فکر میں ہی مقید رہے، تو دین کی ترجمانی وہی لوگ کریں گے جنہیں نہ علم ہے نہ تقویٰ۔ یہی لمحۂ فکریہ ہے۔

علمائے کرام کو اب اپنے ماضی کی عظمت کو زندہ کرنے کے لیے ماضی کے طرزِ فکر سے آگے بڑھنا ہو گا۔ انہیں خود کو محض فتوے یا مناظرے تک محدود رکھنے کے بجائے قومی، فکری، تعلیمی اور تہذیبی رہنمائی کے منصب پر فائز کرنا ہو گا۔ یہی امت کی ضرورت ہے، یہی اسلام کا تقاضا، اور یہی وقت کی پکار۔