اللہ رب العزت نے دینِ اسلام کو جس تدریج، حکمت اور نرمی سے انسانیت تک پہنچایا، وہ خود اپنے اندر ایک عظیم درس ہے۔ شریعت کے احکام کے نفاذ میں انسانی فطرت، جذبات اور عادات کی رعایت رکھی گئی ہے۔ انہی اصولوں میں سے ایک نمایاں اصول یہ ہے کہ جن اعمالِ بد کو امت میں قبولیت اور رواج حاصل ہو چکا ہو، ان کو یکدم مٹانے کے بجائے بتدریج ختم کیا جائے۔
یہی حکمت و بصیرت کا تقاضا ہے اور یہی طریقہ سنتِ الٰہیہ اور سنتِ نبوی ﷺ دونوں میں نمایاں نظر آتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے دعوت و تبلیغ کے اس پہلو کو نہایت مضبوطی اور صبر کے ساتھ تھامے رکھا۔ اس کی ایک روشن مثال شراب کی حرمت کا تدریجی نفاذ ہے۔ اہلِ عرب میں شراب نوشی ایک عام اور گہری معاشرتی عادت بن چکی تھی۔ یہ اتنی راسخ ہو چکی تھی کہ یکبارگی اس کی حرمت کا اعلان کرنے سے بجائے اصلاح کے، ارتداد اور بغاوت کا اندیشہ تھا۔ ایسے میں ربِ کریم نے تدریجی مراحل کے ذریعے قوم کو ذہنی و عملی طور پر اس برائی کے ترک کے لیے تیار کیا۔
پہلا مرحلہ سورۂ البقرہ (آیت 219) میں آیا:
[arabic]”يسألونك عن الخمر والميسر قل فيهما إثم كبير ومنافع للناس و إثمهما أكبر من نفعهما”[/arabic]
اس آیت میں شراب اور جوئے کے نقصان کو ان کے فائدے پر غالب قرار دیا گیا، مگر براہِ راست حرمت کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ ایک ذہنی بیداری کی دعوت تھی۔
دوسرا مرحلہ سورۂ النساء (آیت 43) میں آیا:
[arabic]”يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى…”[/arabic]
اس حکم میں نشہ کی حالت میں نماز کے قریب جانے سے روکا گیا، جو کہ حرمت کی طرف ایک واضح اشارہ تھا، مگر اب بھی قطعی ممانعت نہیں تھی۔
آخرکار، سورۂ المائدہ (آیات 90-91) میں قطعی حکم نازل ہوا:
[arabic] “إنما الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحون…”[/arabic]
اب واضح طور پر شراب کو نجس اور شیطانی عمل قرار دے کر مکمل اجتناب کا حکم دے دیا گیا۔ مسلمانوں نے اس حکم کو سنتے ہی شراب سے توبہ کی، شراب کے مٹکے توڑے اور مدینے کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہا دی گئی۔
یہ واقعہ ہمیں ایک گہرا سبق دیتا ہے کہ دعوت و تبلیغ میں حکمت، تدریج اور نرمی کو اختیار کرنا ضروری ہے، خصوصاً ان برائیوں کے بارے میں جو معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہوں۔ محض سختی، زور زبردستی یا جذباتی طرز عمل نہ صرف غیر مؤثر ہے بلکہ بعض اوقات بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے۔ ہمیں سنتِ الٰہیہ اور سنتِ نبوی ﷺ سے رہنمائی لیتے ہوئے اس تدریجی اصلاحی عمل کو اپنانا ہوگا۔آج جب ہم اپنے گرد و پیش کے ماحول میں گمراہیوں، بدعات اور برائیوں کو دیکھتے ہیں، تو فوری ردعمل دینے کے بجائے ہمیں حکمت و بصیرت، فہم و تدبر اور صبر و برداشت سے کام لینا ہوگا، تاکہ دلوں کو نرمی سے فتح کیا جا سکے۔رب کریم ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔۔۔۔۔۔



تبصرہ لکھیے