ہوم << خودکش حملے، لبرلز اور جنت کی حور کے طعنے - ذی شان وڑائچ

خودکش حملے، لبرلز اور جنت کی حور کے طعنے - ذی شان وڑائچ

جب بھی کوئی دہشت گرد خودکش حملہ کر کے بےگناہ عوام کو قتل کرتا ہے تو ملحدین اور سیکولرز کی طرف سے طعنے دیے جاتے ہیں کہ دیکھو ایک شخص نے حوروں کے لالچ میں اتنے سارے لوگوں کو قتل کردیا۔ گویا حوروں پر اعتقاد بھی اس صورتحال کو پیدا کرنے کا بجائےخود ایک سبب ہے! اس طرح کی حرکت کر کے یہ لوگ حوروں کے وجود کو تسلیم کرنے والے، یعنی تمام مسلمانوں کو قاتل کی سائیڈ میں کھڑا کر دیتے ہیں، یعنی اب بےچارہ مسلمان حوروں کے وجود کے جواز میں کچھ بھی کہے گا تو وہ قاتل کی حمایت کرتا محسوس ہوگا۔ اس لیے خاموش رہتے ہی بنتی ہے۔
یہاں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سیکولرزم کو ماننے والے اور ملحدین حقیقت میں اس گھناؤنے جرم کو ختم کرنا بالکل نہیں چاہتے بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ اس دہشت گردی کو بہانہ بنا کر مسلمانوں پر اپنے عقائد کو ترک کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے یا انہیں ان کے عقائد پر شرمندہ کیا جائے۔ ایک دہشت گرد عام لوگوں کو قتل کرنے کے معاملے میں حوروں کے لالچ سے پہلے اپنے نزدیک اس قتل عام کے لیے ایک اخلاقی یا شرعی جواز پیدا کر چکا ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے اندر حور کا لالچ ہے بھی تو وہ اس لیے حور کی توقع رکھتا ہے کیوں کہ وہ اپنے غلط عمل کو صحیح سمجھنے کے لیے اپنے پاس ایک غلط مقدمہ رکھ چکا ہوتا ہے۔ یعنی اس قسم کے گھناؤنے عمل کو کرنے کے دو محرک ہوتے ہیں۔
۱۔ ایسے عمل کے لیے ایک مزعومہ اخلاقی مقدمہ اور منطقی جواز۔
۲۔ اپنے تیئں ایک مقصد کے لیے قربانی کے اجر کی امید، یعنی جنت اور حوروں کا لالچ۔
پہلا محرک منطقی اور دوسرا محرک motivational ہے۔ دوسرا محرک قطعی طور پر اس بات کا فیصلہ نہیں کرتا کہ کون سا عمل صحیح ہے یا کون سا غلط۔ دوسرا محرک صرف اس عمل کی طرف ابھارتا ہے جس کو پہلے ہی سے عقل اور اخلاقیات کے اعتبار سے صحیح سمجھا جا چکا ہوتا ہے۔ انسان فطری طور پر اس چیز کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس چیز پر قربانی دینے پر تیار ہوجاتا ہے جس کو وہ اخلاقی اور منطقی طور پر صحیح سمجھتا ہے۔ اور یہ دوسرا محرک اس صحیح چیز پر عمل کرنے اور اس کے لیے قربانی دینے کے جذبے کو مہمیز دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر دوسرے محرک کو مؤثر ہونے کے لیے پہلے محرک کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن پہلا محرک فی نفسہ مؤثر ہے۔ یہ دوسرا محرک بہت سارے ایسے کاموں پر بھی ابھارتا ہے جس پر متوازن فکر والے مسلمان کیا بلکہ سیکولرزم کے داعی بھی متفق ہوں گے۔ اس اعتبار سے دوسرا محرک ایک ایسی عظیم قوت ہے جس سے انسان دنیاوی مفادات سے لاپرواہ ہو کر خیر کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دیتا ہے، لیکن چونکہ آج کے دور میں عالمی سیکولر طاقتوں کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے کچھ لوگوں نے مسلم اور غیر مسلم عوام کے قتل ناحق کے لیے ایک غلط مقدمہ گھڑ لیا ہے، اس لیے ممکن ہے کہ یہ دوسرا motivational محرک بھی غلط طریقے سے استعمال ہو رہا ہو۔
مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت اور تمام معروف علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے کسی عمل کا کوئی اخلاقی مقدمہ یا منطقی جواز موجود نہیں ہے جس میں مسلمان کیا غیر مسلم عوام کو نشانہ بنایا جائے۔ یعنی اس کے جواز کے نہ ہونے کے معاملے میں سیکولرز اور مسلمان علماء متفق ہیں۔ اور اگر یہ سیکولرز واقعی میں چاہتے ہیں کہ اس ظلم کو ختم کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں تو ان کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ مسلمان علماء کے حوالے سے واضح کرتے کہ یہ قاتل دہشت گرد مسلمان علماء کی آراء کے خلاف جا رہے ہیں۔ لیکن نہیں، ایسا کرنے کی صورت میں سیکولرزم کی انفرادیت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اور اگر ’خدانخواستہ‘ یہ خود کش حملے بند ہوجائیں تو پھر سیکولرزم کی طلب مارکیٹ میں کم ہونے کا خطرہ ہے اس لیے جب تک یہ خودکش حملے ہوتے رہیں گے، سیکولرزم کی ڈیمانڈ مارکیٹ میں باقی رہے گی اور مسلمانوں کو اپنے دین و ایمان پر طعنے دینے کے مواقع ملتے رہیں گے۔ اس کے لیے آسان سا طریقہ یہ نکلا کہ اس قتل کے اصل محرک کو چھیڑا نہ جائے اور بس مسلمانوں کو جنت اور حوروں پر بھرپور طعنہ دیے جائیں۔ اس طرح یہ خودکش قاتل اور بے چارے عام مسلمان اپنے علماء سمیت ایک ہی پارٹی نظر آئیں گے۔ بےچارے اسلامی ذہن والوں کے لیے کوئی موقع ہی نہیں ملے گا کہ وہ ان جرائم کے اصل مقدمے کا کھل کر رد کر سکیں۔ اور اگر کر بھی دیں تو نقار خانے میں طوطی کی طرح کسی کو سنائی ہی نہ دیں۔ جب اس قسم کے گھناؤنے قتلِ عام اور حوروں کے لالچ کو ہی ملادیا جائے تو شرم کے مارے چپ رہنے اور اپنے عقیدے پر شرمندہ شرمندہ سے ہونے کے علاوہ کیا ہی کیا جاسکتا ہے۔
سیکولرزم کے حامی اور خودکش حملہ آور حقیقت میں تو دو انتہائیں ہیں، لیکن یہ دونوں انتہائیں ایک دوسرے کے لیے جواز بھی فراہم کرتی ہیں۔ اس طرح سے یہ دونوں متوازن فکر رکھنے والے مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کی موافقت کرتے ہیں۔ متوازی فکر رکھنے والے مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ سیکولروں کے طعنوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کھل کر میدان میں آئیں۔ یہ غلط مقدمہ بہرحال اسلام کو ہی استعمال کر کے پیش کیا جارہا ہے۔ اس لیے علماء کی طرف سے کھل کر اس (اسلام کا نام لے کر دہشت گردی کو جواز دینے والے مقدمے) کی مخالفت ہونی چاہیے۔

Comments

Click here to post a comment