ہوم << کشمیر تو جنت ہے - سید ساجد شاہ

کشمیر تو جنت ہے - سید ساجد شاہ

2 سال پہلے جب میں بسلسلۂ ملازمت سعودی عرب میں مقیم تھا، ایک دن فیس بک پر برادرم ضیاء الحق کی کیرن سیکٹر میں لی گئی تصویر دیکھی تو دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس مقام کو لازمی دیکھنا چاہیے. ضیاء کے سامنے یہ بات رکھی تو انہوں نے وعدہ کیا کہ جب بھی آپ پاکستان آئے تو کشمیر کا ٹور لازمی رکھیں گے.
4 اگست بروز جمعرات میں گھر سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا. راولپنڈی میں ہم دم دیرینہ میاں عمران حارث منتظر تھے. میاں صاحب میرے دوست ہی نہیں اثاثہ بھی ہیں. برسوں بیت گئے، ادارہ علوم اسلامی اسلام آباد کے دور طالب علمی سے لے کر آج تک اللہ کے فضل سے یہ تعلق قائم ہے بلکہ اس کی جڑیں اب ہمارے خاندانوں تک پہنچ گئی ہیں. ماڈل ٹاؤن ہمک میں واقع ضیاء الحق کے گھر پہنچے تو انہوں نے خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا. ضیاء الحق بھی کمال کے آدمی ہیں. یاروں کے یار ہیں. میرا ان سے تعلق 2011ء میں قائم ہوا جو وقت کے ساتھ گہری دوستی میں بدل گیا. موصوف چونکہ نسلاً راجپوت ہیں. اس لیے اعلیٰ خاندانی صفات کے حامل ہیں. دوستوں کے لیے ہمدردی و غمخواری میں ان سے بڑھ کر میں نے کوئی نہیں دیکھا. شام کو میاں صاحب نے بلیو ایریا اسلام آباد سے کیمرہ خریدا.
رات گزارنے کے لیے اپنی مادر علمی کی آغوش سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی تھی. جب بھی خوش قسمتی سے ادارہ علوم اسلامی اسلام آباد آمد ہوتی ہے تو اپنی طالب علمی کا زمانہ یاد آجاتا ہے. اس گیارہ سالہ قیمتی دور نے ہر طالب علم کی دل کی دنیا بدل کر رکھ دی. ہم کیا تھے جب آئے تھے. ہماری اوقات کیا تھی؟ یہ ادارہ ہی تھا اور یہ ہمارے اساتذہ ہی تھے جن کی محنت، شفقت اور بھرپور توجہ نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا. جمعہ کی صبح مجھے اور میاں عمران حارث کو شیخ الادب مولانا ریاض احمد خان شہید کی قبر پر فاتحہ خوانی کا اعزاز حاصل ہوا. اس کے بعد اشرف علی کے گھر ناشتہ کیا. موصوف حال ہی میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے انگریزی ادب میں غیر معمولی بلکہ ریکارڈ نمبر لے کر گولڈ میڈل کے حقدار ٹھہرے. انگریزی ادب پر ان کی گرفت انتہائی مضبوط ہے. اشرف سے تعلق بھی بہت پرانا ہے اور دور طالب علمی میں میاں عمران کے ہمراہ ان کے یہاں خوب دعوتیں اڑانے کا شرف بھی ہمیں حاصل ہے.
دان 12 بجے ہمارے سفر کا آغاز بھارہ کہو سے ہوا. میرے ہم جماعت عمر فاروق بھی یہاں سے شامل سفر ہوئے. سخت محنت کرکے انہوں نے ایک باعزت مقام حاصل کیا اور 2005ء کے فیڈرل بورڈ کے میٹرک کے امتحانات میں تیسری پوزیشن کے حقدار ٹہرے. تعلیم کے ساتھ عمر بیک وقت کھیل اور ادب کے بھی دلدادہ ہیں. ضیاءالحق کے ہم جماعت وقار احمد بھی شریک سفر ہوئے. دونوں نہ صرف خود خوش رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو خوش رکھنے کا فن بھی جانتے ہیں.
جھیکا گلی کی برلب سڑک جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کی اور سفر جاری رکھا.
مری کبھی انگریزوں کا پسندیدہ مقام ہوا کرتا تھا. بڑی تعداد میں انگریز آباد تھے. یہاں بڑے نامی گرامی انگریز پیدا ہوئے جن میں سے سب سے زیادہ شہرت بدنام زمانہ جلیانوالا باغ کے مرکزی مجرم جرنل ریجنالڈ ڈائر کے حصے میں آئی. تاریخ آج بھی جسے امرتسر کے قصاب کے نام سے یاد کرتی بلکہ لعنت بھیجتی ہے. مری سے نکلے تو کشمیر کے ساتھ تاریخ کا سفر بھی شروع ہوا. بچپن سے جس کے بارے میں سنا اور پھر جسےخوب پڑھا تو وہ کشمیر جنت نظیر ہی ہے. میرا ننھیال جو کہ گیلانی سادات پر مشتمل ہے، خاندانی روایت کے مطابق مدینہ منورہ سے عراق و کشمیر سے ہوتا ہوا موجودہ پاکستانی علاقے میں آباد ہوا. ریاست جموں و کشمیرایشیا کے تقریباً وسط میں اور بر صغیر پاک و ہند کے شمال میں واقع ہے. یہ ایشیا کے دل اور برصغیر کے تاج کے نام سے مشہور ہے. ریاست کے شمال میں چین و روس واقع ہیں. چین و ریاست کے درمیان کوہ ہمالیہ حائل ہے. مشرق میں تبت جبکہ جنوب میں پاکستان و ہندوستان اور مغرب میں پاکستان و افغانستان ہیں. بقول چراغ حسن حسرت
ریاست جموں و کشمیر ایک عظیم عمارت ہے.جس کی کئی منزلیں ہیں. جموں اس عمارت کا دروازہ ہے. اور اس آگے دریائے جہلم تک کا علاقہ اس کا صحن ہے. رام نگر، اودھم پور، کشتواڑ، راجوری، اور پونچھ تک کا علاقہ اس کی پہلی منزل ہے. پیر پنجال کے پہاڑوں کے اس پار بڑھیں تو خطہ فردوس نشان نظر آتا ہے جسے وادی کشمیر کہتے ہیں. یہ اس عمارت کا تیسرا حصہ ہے. وادی کے سامنے اور دائیں بائیں اونچے پہاڑوں کی دیوار ہے جس سے پار اتریں تو تیسری اور آخری منزل کا آغاز ہوتا ہے. اب سامنے بلتستان ہے. دائیں ہاتھ لداخ ہے جو مشرق میں تبت تک پھیلا ہوا ہے اور بائیں طرف گلگت کا علاقہ ہے.
تقسیم ہند کے وقت 562 دیسی ریاستوں میں سے سب بڑی ریاست کشمیر تھی. اس کا رقبہ 84،471 مربع میل تھا . ریاست کے تین صوبے تھے. جموں، کشمیر،گلگت. ریاست جموں و کشمیر اقوام متحدہ کے 92ممبر ممالک سے بڑی ہے. قائد اعظم محمد علی جناح نے ریاست کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا. بدقسمتی سے آزادی کے بعد سے ہماری شہ رگ دشمن کے قبضے میں ہے. قدرت نے کئی بار قیمتی مواقع دیے جنھیں بزدل و ناعاقبت اندیش قیادت نے ضائع کر دیا. ریاست کے مسلمان جو آبادی میں ریاست کا 80فیصد ہیں، الحاق پاکستان کے لیے سرگرم عمل ہیں. ریاست کا گرمائی دارالحکومت سرینگر تھا. جی ہاں سید علی گیلانی باوفا کا سرینگر. کشمیر بنے گا پاکستان جس کے دل پہ نقش ہے. اس شہر کو راجہ پرور سین نے دریائے بہت (جہلم) کے دونوں کناروں پر آباد کیا تھا. جبکہ سرمائی دارالحکومت جموں تھا. جس کی بنیاد ریاست باھو کے راجہ جامبو لوچن نے 3000 ق م میں رکھی.
کوہالہ پل پر پہنچے تو دریا کا کنارہ کسی دوسرے ملک کی ثقافت کا منظر پیش کر رہا تھا. پاکستانیت فقط لباس تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے اور انڈین کلچر کے آگے شاید آخری دموں پر ہے. ہمارا لباس، زبان اور ثقافت ہی ہمارے لیے قابل فخر ہیں. نہیں معلوم ہمیں کب اس کا احساس ہوگا؟ کوہالہ کا قصبہ مری سے شمال کی جانب 38 جبکہ مظفرآباد سے جنوب کی جانب 35 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے. ایک اندازے کے مطابق اس مقام پر دریا کی گہرائی 150 فٹ تک ہے. کوہالہ کا پل پہلی مرتبہ 1877ء میں تعمیر ہوا جو 1890ء کے سیلاب میں تباہ ہوگیا. پل کی دوسری تعمیر 1899ء کو عمل میں آئی، تیسری مرتبہ 1993ء پل تعمیر ہوا. کوہالہ پل کی ایک جانب آزاد ریاست جموں و کشمیر کی حدود کا آغاز ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب علاقہ ہزارہ (خیبر پختون خوا) کا اختتام ہوتا ہے. ہزارہ بھی کبھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خالصہ ریاست کا حصہ ہوا کرتا تھا. سکھ دربار میں دیوان جوالا سہائے کو وزیر خارجہ کی حیثیت حاصل تھی. اس کی سفارش پر ہزارہ کا تبادلہ علاقہ کھڑی اور علاقہ مناور سے ہوا. کوہالہ پہنچے ہی تھے کہ شدید بارش کی لپیٹ میں آگئے مگر موسم کی پہاڑی روایات کے مطابق بادل چھٹنے میں بھی دیر نہیں لگی. بارش جس تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے چلی بھی گئی. مطلع صاف ہوتے ہی ہم اپنی اگلی منزل مظفر آباد کی جانب گامزن ہوئے.
کوہالہ پل سے مظفر آباد تک کے علاقے کی ڈوگرہ فوج سے آزادی کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے. تحریک آزادی کشمیر کے دوران ریاست جموں و کشمیر میں وادی جہلم، پونچھ، جموں اور گلگت محاذ جنگ بنے. 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم پر ڈوگرہ فوج اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے جتھوں نے جموں کے علاقے ماوا میں ایک لاکھ کے قریب مسلمانوں کو بےدردی سے شہید کر ڈالا. اس قتل عام کی دلدوز تفصیلات جب پاکستان اور افغانستان کے قبائلی علاقوں میں پہنچیں تو عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور پشتون قبائلیوں کے جتھے کے جتھے ایبٹ آباد کے راستے کشمیر کی طرف چل دیے. ریاست میں ہندوستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر خورشید انور نے اسی لشکر کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی. ریاست کی فوج کے کیپٹن شیر خان نے میجر خورشید انور سے رابطہ قائم کیا اور مظفرآباد سمیت دریائے کشن گنگا (نیلم) دو میل اور کوہالہ کے پلوں کو صحیح سالم اپنے قبضے میں لے لیا. ریاستی فوج کے ایک اور ریٹائرڈ افسر میجر اسلم خان بھی اس منصوبے میں شامل ہو گئے. انھوں نے ڈوگرہ فوج اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے دستوں کو شکست دے کر کوہالہ، دومیل اور مظفرآباد کو فتح کرلیا. ابھی 15کلومیٹر کا سفر طے کر کے دولائی پہنچے تھے کہ گروپ لیڈر ضیاء الحق نے ایک خوبصورت آبشار کی طرف اشارہ کرکے رکنے کا کہا. اس دل موہ لینے والی آبشار تک پہنچنے کے لے دریائے جہلم پر بنی دیسی ساختہ لفٹ پر بیٹھنا پڑا جس کو دیکھ کر پل صراط کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا. کافی رش تھا. یہاں آبشار کے نظارے کا لطف لیا، نماز عصرپڑھی اور دوبارہ لفٹ کے امتحان سے گزر کر اپنی پہلی منزل مظفر آباد کی راہ لی. عین مغرب کے وقت مظفرآباد پہنچے. یہ شہر بمبہ قبیلے کے سردار مظفر خان کے نام سے موسوم ہے. اس قبیلے کا تعلق قریش کی شاخ بنوامیہ سے بیان کیا جاتا ہے. جو خلافت عباسیہ کے قیام کے فوراً بعد مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا کشمیر آپہنچا.
مظفر آباد آزاد ریاست جموں و کشمیر کا دارالحکومت ہے. یہ شہر دریائے نیلم و دریائے جہلم کے کنارے آباد ہے. اسلام آباد سے 138 کلومیٹر جبکہ ایبٹ آباد سے اس کا فاصلہ 76 کلومیٹر ہے. مظفرآباد کا لال قلعہ کافی مشہور ہے. دریائے نیلم کے کنارے پر واقع اس قلعے کی بنیاد کشمیر پر حکمران چک خاندان نےرکھی تھی اور اس کی تکمیل سلطان مظفر خان کے ہاتھوں ہوئی. 2005ء کے ہولناک زلزلے سے یہ شہر شدید متاثر ہوا. اس موقع پر دوست ممالک سعودی عرب اور خصوصاً ترکی کا تعاون مثالی تھا. ترک خاتون اول اردوان نے اپنا ذاتی ہار بھی زلزلہ متاثرین کے فنڈ میں عطیہ کیا. یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ ہار یوسف رضا گیلانی صاحب کے گھر سے برآمد ہوا. ہمارا رات کا قیام ہوٹل ریور ان میں تھا. ہوٹل کی بالکونی سے دریائے نیلم نیم دائروی شکل میں مڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے. ہفتے کے روز نماز فجر اور ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم اپنی منزل مقصود وادی نیلم کی طرف گامزن ہوئے. (جاری ہے)
سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

Comments

Click here to post a comment