جشن آزادی کو جوش وخروش اور جذبے سے منانے کی تیاریاں عروج پر تھیں کہ کوئٹہ میں معصوم شہریو ںکے خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔ سانحہ کوئٹہ نے دل پر قیامت برپا کردی اور اگست 1947 میں مسلمانوں کے قتل عام کی یاد تازہ کردی۔ وہ قربانیاں قیام پاکستان کے لئے تھیں اور یہ شہادتیں استحکام پاکستان کے لئے ہیں۔ شاید ہی خطہ ٔ ارض پر کسی اور قوم نے اپنے وطن کے قیام و استحکام کےلئے اتنی قربانیاں دی ہوں جتنی پاکستانی قوم کے مقدر میں تھیں۔ قیام پاکستان کا اولین محرک مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت، انہیں ہندو اکثریت کی چیرہ دستیوں سے محفوظ بنانا اور انہیں احساس تحفظ فراہم کرنا تھا۔ 14اگست یوم احتساب ہے اور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں اور کامیابیوں کا تجزیہ کریں اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حصول کے لئے حکمت عملی بنائیں۔ اس حوالے سے غور کریں تو محسوس ہوتاہے کہ تمام تر کوششوں، جہادی جذبے اور ضرب ِ عضب کی قابل رشک کامیابیوں کے باوجود دشمن بار بار پاکستان کے جسم پر کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ دشمن کامیاب ہو جاتا ہے مگر ہم ناکام ہو جاتے ہیں؟ عالمی سطح پر کارکردگی کی شہرت پانےوالی ایجنسیاں اتنے بڑے منصوبوں کو ناکام بنانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوتیں؟ ہم بہت سے گھروں کو اجاڑ کر اور قربانیاں دے کر بیدار ہوتے ہیں جبکہ دشمن ہمارے اندر موجود ہے اور ہر لمحہ خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ ضرب عضب آرمی پبلک اسکول پشاور کےناقابل فراموش سانحے کا جواب تھا تو کامبنگ (Combing) سانحہ کوئٹہ کا ردعمل ہے۔ کیا یہ بیدار مغز قوموں کا وطیرہ ہے؟ مجھے اس موقع پر اپنے مرحوم استاد ڈاکٹر منیر الدین چغتائی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے؎
شبنم لہو بنی ہے، گلوں سے اٹھے شرار
یوں بھی ہوا ہے جشن بہاراں کبھی کبھی
14اگست یوم آزادی اور خوابوں کی تعبیر کا دن ہے۔ خوابو ں کی تعبیر کے حوالے سے یہ یوم احتساب ہے کہ ہم غور کریں اور سوچیں پاکستان کن خوابوں کی تعبیر تھا اور وہ خواب کس حد تک پورے ہوئے تاکہ وہ مقاصد اور منزل ہماری نگاہوں اور ذہنوں میں زندہ رہیں۔ احساس منزل جہاں بے حسی کا جمود توڑتا ہے وہاں جدوجہد اور حرکت کا جذبہ بھی پیدا کرتاہے۔ اس لئے نوجوا ن نسلوں میں حصول پاکستان کےمقاصد کو زندہ رکھنا ضروری ہے تاکہ انہیں احساس رہے کہ
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
منزل کیا تھی۔ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ اول تو یہ کہ قائداعظم ؒ کا تصور پاکستان کیا تھا اور انہوں نے کس قسم کے پاکستان کےلئے عوام سے حمایت طلب کی۔ دوم خود عوام کے ذہنوں میں پاکستان کا کیا نقشہ تھا اور انہوں نے کس قسم کے پاکستان کےلئے تاریخی قربانیاں دیں۔ بلاشبہ راہ ِ آزادی میں خون کے چراغ جلانے ہی پڑتے ہیں کیونکہ غیرملکی حاکموں کے تسلط سے نجات حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا لیکن قیام پاکستان کےلئے ہجرت سے لے کر قیدو بند اور قتل و غارت تک جتنی قربانیاں دی گئیں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔
قائداعظمؒ پاکستان کو ایک ماڈرن اسلامی فلاحی جمہوری ملک دیکھنا چاہتے تھے جس میں انسانی سطح پر مساوات، معاشی، سماجی عدل، انصاف، اقلیتوں کے لئے برابر کے حقوق، شہری آزادیوں، استحصال، کرپشن، کنبہ پروری اور بلیک مارکیٹنگ کے خاتمہ اور سیاسی سطح پر قانون کی حاکمیت (Rule of Law) کا دور دورہ ہو۔ اس ضمن میں ان کی بے شمار تقاریر کے حوالے دیئے جاسکتے ہیں جن میں قیام پاکستان سے قبل اور بعد ازاں کی تقریریں شامل ہیں۔ میرے مطالعے کے مطابق قائداعظمؒ نہ ہی مذہبی شخصیت تھے اور نہ ہی سیکولر تھے۔ وہ ایک روشن خیال، وسیع المطالعہ مسلمان تھے اور انہوں نے سیرت نبویؐ، قرآن حکیم اور اسلامی قوانین کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ وزیر آباد کے طوسی صاحب جو خاصا عرصہ قائداعظمؒ کے مہمان رہےاور ان کی ذاتی لائبریری سے استفادہ کرتے رہے کے علاوہ قائداعظمؒ کے ذاتی اسٹاف کے اراکین اور دوست اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کی لائبریری میں ان موضوعات پر مستند کتابیں موجود تھیں جن کا قائداعظمؒ مطالعہ کرچکے تھے۔
وہ ہمارے حاکموں کی مانند محض سن سنا کر تقریریں نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی تقریریں ان کی گہری فکر کی غمازی کرتی تھیں۔ وہ بہت غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہوگی۔ اس میں فرقہ پرستی، برادری ازم، جاگیرداری اور دھونس دھاندلی نہیں ہوگی بلکہ پاکستان ایک ماڈرن اسلامی فلاحی جمہوری ملک ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانان ہند و پاکستان نے اسی تصور کے لئے 1945-46 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو ووٹ دیئے، قائداعظمؒ کی آواز پر لبیک کہا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جان و مال کی قربانیاں دیں۔ جہاں تک مسلمان عوام کا تعلق ہے ان کے ذہنوں میں پاکستان کاتصور ایک اسلامی ریاست کا تصور تھا اور ان کی اکثریت اسلامی ریاست کے حوالے سے خلافت ِ راشدہ سے روشنی حاصل کرتی تھی۔ میں جاگیرداروں، وڈیروں اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل امرا کی بات نہیں کر رہا کیونکہ ان کی نظریں وزارتوں، سفارتوں اور عہدوں پر لگی ہوئی تھیں میں ان مسلمان عوام کی بات کر رہا ہوں جن میں نیم خواندہ، خواندہ، دیہاتی، شہری سبھی قسم کے لوگ شامل تھے اور جنہوں نے حصول پاکستان کے لئے صحیح معنوں میں قربانیاں دیں۔
سوال یہ ہے کہ میرے ذہن میں یہ تاثر کیسے بنا؟ جن دنوں میں اپنی کتاب ’’مسلم لیگ کا دور ِ حکومت‘‘ پر تحقیق کر رہا تھا اور مواد اکٹھا کر رہا تھا، انہی دنوں مجھے بے شمار ایسے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جنہوں نے مسلم لیگ کے ایک عام کارکن، سپاہی اور عہدیدار کی حیثیت سے تحریک ِ پاکستان میں حصہ لیا تھا۔ ان میں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے بھی شامل تھے اور ایسے خواتین و حضرات بھی شامل تھے جن کا تعلق پاکستان کے علاقوں سے تھا۔ اس کے علاوہ مجھے لاتعداد ایسے کارکنوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جنہوں نے مہاجرین کے کیمپوں میں بے لوث خدمات سرانجام دی تھیں اور انہیں مہاجرین سے ملنے، ان کی ذہنی کیفیت سمجھنے اور ان کی خدمت کا موقع ملا تھا۔ ان حضرات کے بیانات کے مطابق اگرچہ یہ لوگ آگ اور خون کے سمندر سے گزر کر آئے تھے، ان کے پاس کھانے، پینے اور سرچھپانے کو کچھ نہیں تھا تاہم ان کا عزم اور جذبہ جوان تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنے خوابوں کی جنت میں آگئے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا تصور موجزن تھا جس میں انہیں ہر طرح کا سیاسی، معاشی اور سماجی تحفظ حاصل ہوگا اور جس میں خلافت راشدہ کی جھلک موجود ہوگی۔ مجھے بہت سے عینی شاہدین نے یہ بتایا کہ ہم نے لاتعدادایسے خواتین و حضرات کو دیکھا جو زخمی، بیماری یا لاغری کی حالت میں پاکستان پہنچے اور انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر سجدہ شکر ادا کرکے یا خاک وطن کو چوم کر اپنی جان مالک حقیقی کے سپرد کردی۔ ان کی صرف ایک ہی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح پاکستان کو دیکھ لیں اور خاک پاک پر قدم رکھ لیں ان شہیدوں کی روحیں آج بھی پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان دیکھنے کے لئے بے چین ہیں۔
یوم احتساب، یوم آزادی کے حوالے سے ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا ہے کہ کیا ہم نے پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان بنا دیا ہے۔
کیا ہم نے اس خواب کی تعبیر پالی ہے جس کے لئے ہمارے بزرگوں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں، پاکستان اپنے سیاسی معاشی نظام، حکمرانوں کے کردار اور عام شہریوں کے حقوق کے حوالے سے ایک ماڈرن اسلامی جمہوری ملک بننے میں کامیاب ہوا ہے..... ظاہر ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے کیونکہ پاکستان نہ جمہوری ملک ہے نہ اس کا معاشرہ استحصال سے پاک ہے، نہ لوگوں کو معاشی و سماجی عدل حاصل ہے نہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے نہ عدالتی انصاف شہریوں کو میسر ہے اور نہ ہی احساس تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان پر بدقسمتی سے مخصوص طبقے حاوی ہیں وہی اقتدار میں رہتے ہیں اور انہی کے مفادات ملک کی اجتماعی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ نتیجے کے طور پر عام شہری اور بے وسیلہ پاکستانی ظالمانہ اور جابرانہ نظام کی چکی میں پس رہے ہیں اور انہیں منزل کی روشنی کہیں نظر نہیں آتی۔
اسی لئے میں کہتا ہوں کہ چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی۔ ہماری منزل وہ پاکستان ہے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا اور جس کا تصور قائداعظمؒ نے دیا تھا اور اس خواب کو شرمندہ ٔ تعبیر کرنا ہمارا سب کا انفرادی اور اجتماعی فرض ہے۔ مایوسی کی بجائے عمل کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان بنانے کے لئے نہ ہی آسمان سے فرشتے اتریں گے اور نہ ہی یہ ہماری قیادت کے بس کا روگ ہے اس لئے معجزوں کا انتظار کرنے کی بجائے ہم میں سے ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، وہ کردار کم ہو یا زیادہ..... کیونکہ قرآن مجید کا فیصلہ ہے کہ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(ظفرعلی خان)
تبصرہ لکھیے