جنوبی ایشیا کی باگ خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہے۔ خطے میں قیامِ امن کے لیے ناگزیر ہے کہ اسے سیاسی ہاتھوں میں دے دیا جائے۔
پاک بھارت تعلقات کی تلخی تاریخ کا وہ بوجھ ہے جو اس خطے کے مکینوں کو بہر صورت اٹھانا تھا۔ ہند تقسیم ہوا تو لاکھوں لوگ جان سے گئے۔ اس کی تفصیلات نئی نسل کے سامنے نہیں آ سکیں۔جب تنقید ہوئی تو جواہر لال نہرو نے اسے دردِ زہ ( Birth Pangs ) قرار دیا۔گویا نئے ملک جنم لیتے ہیں تو درد اٹھتا ہے۔ مولانا مودودی نے ان فسادات کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے لکھا : اگر یہ دردِ زہ ہے تو یہ کسی درندے کی پیدائش کی خبر ہے۔ مولانا کایہ جملہ آج تک تنقید کی زد میں ہے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ تقسیم کا عمل تلخیوں کو بڑھانے کا باعث بنا۔
تقسیم کا تصور تو اس لیے پیش کیا گیا تھا کہ مسلسل تصادم کی کیفیت سے نجات ملے۔ علامہ اقبال نے یہی بات خطبہ الٰہ آباد میں کہی اور قائداعظم بھی یہی چاہتے تھے جب انہوں نے خواہش کی کہ پاک بھارت تعلقات ، امریکہ کینیڈا کے تعلقات کی طرح آگے بڑھیں۔ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ باؤنڈری کمیشن کی ناانصافی ،کانگریس انگریز ملی بھگت اورمسلمان قیادت کی سادگی سے، تقسیم کا اقدام نہ ختم ہونے والے تصادم میں ڈھل گیا۔
تقسیم کے بعداس خطے کی قیادت کے پاس دو مواقع ایسے آئے جب تاریخ کے اس بوجھ سے نجات ممکن تھی۔ ایک 1950ء کی دہائی میں،جب کشمیر میں آزادی کی لہر عروج پر تھی اور اس کی شدت سے گھبرا کر، بھارت نے اقوام متحدہ کا رخ کیا۔ اگر نہرو اپنے الفاظ پر قائم رہتے اورکشمیریوں کو یہ حق دے دیا جاتا کہ وہ اپنے مقدر کا فیصلہ کریں تو یقیناً تاریخ کا دھارا بدل جاتا ۔ دوسرا موقع 1998ء میںآیا جب واجپائی لاہور آئے۔ اس بار جنرل پرویز مشرف تاریخ کے راستے میں حائل ہو گئے۔ وقت نے اس خطے کی قیادت کو دو مواقع ارزاں کیے۔ دونوں ضائع کر دیے گئے۔ اب وقت اتنا مہرباں بھی نہیں کہ بار بار مواقع ہاتھ میں لیے ہمارے دروازے پر دستک دیتا پھرے۔
اس تاریخی تصادم اورپھر خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے سبب، پاکستان اور بھارت میں فیصلہ سازی اور اقدام کا حق خفیہ ایجنسیوں کو منتقل ہو گیا۔ بھارت نے نئے سفر کا آغاز یہ فرض کرتے ہوئے کیا کہ پاکستان چند دنوںکا مہمان ہے۔ ہندوستان کو پھر متحد ہونا اور خطے کی بڑی قوت بننا ہے۔جمہوری اصولوں کی بنیادپر اس کی قیادت ہندو اکثریت کو منتقل ہو جائے گی۔ بھارت نے ابتدا ہی سے کوشش کی کہ پاکستان کی بقا کا راستہ روکاجائے۔ پاکستان کے حصے کی رقم دینے سے انکار کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس پر گاندھی جی کو صدائے احتجاج بلند کرنا پڑی۔1965 ء میں وہ لاہور کے درپے ہوا۔ 1971ء میں اس نے ہماری حماقتوں سے فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو دو لخت کروا دیا۔ اس کے ساتھ اس نے سری لنکا، نیپال اور خطے کر دوسرے ملکوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ تاریخ نے ا سے موقع دیا تو اس نے افغانستان میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا۔ ایران سے بھی تعلقات استوار کر لیے۔ یہ جنوبی ایشیا کا سردار بننے کی کوشش ہے۔اس سارے عمل میں اس کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار بنیادی رہا۔بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا دائرہ خطے میں کیسے پھیلا ہوا ہے،اس کا اندازہ کل بھوشن یادوکے کردار سے کیا جا سکتا ہے۔آج بھارت کی قیادت عملاً ایجنسیوں کے ہاتھوں میںمنتقل ہوچکی۔
پاکستان میں بھی یہی ہوا لیکن زیادہ آسانی کے ساتھ اور اعلانیہ۔ فوج 1958ء ہی میں برسراقتدار آ گئی۔ یوں اقتدار کی دوئی کا کوئی تصور پیدا ہی نہیں ہوا۔جنرل ضیاالحق مرحوم کے دور میں جب ریاستی سطح پر،افغانستان ہی میں سوویت یونین کی مزاحمت کا فیصلہ ہوا تو حکمتِ عملی کی تشکیل کا کام آئی ایس آئی کو سونپا گیا۔آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل اختر عبدالرحمن اس معرکے کے اصل معمار قرار پائے۔کوئی اس کی تفصیل جاننا چاہے تو برادرِمحترم ہارون الرشید کی کتاب'فاتح‘ پڑھ لے۔یہ سی آئی اے اورآئی ایس آئی کا مشترکہ مشن تھا۔اختر عبدالرحمن کے بعد، اس مشن کو جنرل حمید گل نے آگے بڑھایا ۔1980 ء کی دہائی میں ایجنسیاں بلاشرکتِ غیرے یہاں حکمران تھیں۔امریکہ نے بالآخریہاں سے جانا تھا اوریہ بات جنرل ضیاالحق صاحب کو معلوم تھی۔انہوں نے اپنی ایجنسیوں کے لیے بعد از سوویت یونین، ایک ایجنڈا طے کردیا۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ اس کے راستے میںمزاحم ہوئیں۔ اُن کے اور جنرل حمید گل کے مابین تلخیوں نے جنم لیا۔جنرل صاحب نے ضیاالحق صاحب کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ساری توقعات نوازشریف صاحب سے وابستہ کر لیں۔بے نظیر کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لیے اسلامی جمہوری محاذ کی ایجادہوئی۔نوازشریف نے اگرچہ ضیاالحق کے مشن کی تکمیل کا وعدہ کیالیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ پاکستان کو کس دلدل میں دھکیلا جارہا ہے۔نتیجہ یہ نکلا کی حمید گل صاحب اور ان کے تعلقات میں دراڑ آئی جو دلوں تک پھیل گئی۔کارگل ہوا تو جنرل صاحب نے مطالبہ کیا:نوازشریف پر غداری کا مقدمہ چلا یا جا ئے۔
جنرل مشرف کے کہنے پر نوازشریف امریکہ گئے۔مشرف اورفوج کے دفاع میں انہوں نے اپنی سیاست داؤ پر لگا دی۔صلہ یہ ملا کہ ان کا اقتدار گیا اور جان بھی داؤ پر لگ گئی۔پھر مشرف صاحب کے آٹھ سال تھے اور طالبان تھے۔ہم نے جنرل ضیاالحق کے دور کاا حیا دیکھا،اِس فرق کے ساتھ کہ مجاہدین کی جگہ طالبان اور گل بدین کی جگہ ملا عمر نے لے لی۔اس سارے عرصے میںمعاملات ایجنسیوں ہی کے ہاتھ میں رہے۔
بھارت اور پاکستان کے اہلِ سیاست کی اس ناکامی نے اس خطے کے امن کوبرباد کرد یا۔ دہشت گردی،دھماکے اور موت عوام کا مقدر بن گئے۔کھلی جنگ ہوتی تھی تو بربادی سرحدوں تک محدود رہتی تھی۔ معاملات خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ میں آئے توجنگ جنوبی ایشیا کے گلی بازار میں پھیل گئی۔آج سری لنکا، نیپال، افغانستان، بھارت اور پاکستان کا کوئی قصبہ ،کوئی شہراور کوئی علاقہ ایسا نہیں جسے پُر امن کہا جا سکے۔اب ہر طرف فساد اور خوف کا بسیرا ہے۔ایجنسیوں کی حکومت کا یہی انجام ہو سکتا تھا۔ معاملات جب فوج یا خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں تو ترجیح عوام نہیں، ریاست ہوتی ہے۔لوگ مرتے ہیں تو مرتے رہیں، ریاست بچ جائے۔
یہ بات صرف ایک سیاسی ذہن ہی سمجھ سکتا ہے کہ ریاست عوام کے لیے ہوتی ہے،عوام ریاست کے لیے نہیں ہوتے۔ریاست کا اصل وظیفہ ہی عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ ریاست جب 'سکیورٹی سٹیٹ ‘بنتی ہے تو یہ مقدمہ معکوس ہو جا تا ہے۔پھرریاست اپنے مقاصد کے لیے موت کو گلیمرائز کرتی ہے۔لوگوں کو ملک کے لیے مرنے پر ابھارا جاتا ہے۔یوں کوئٹہ کی طرح کا حادثہ ہو تا ہے تو رہنما بیان جاری کرتے ہیں:'دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔‘کاش اس موقع پر کوئی اس گھر کی بھی خبر لے جہاں سے لاش اٹھتی ہے۔اب تو گھروں سے ایک نہیں، ایک وقت میںکئی کئی لاشیں اٹھتی ہیں۔ موت سے محبت غیر فطری ہے۔فطرت سے لڑائی معاشروں کو ذہنی مریض بنا دیتی ہے۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم ذہنی طور پر ایک صحت مند معاشرے میں زندہ ہیں؟
جنوبی ایشیا میں قیامِ امن کے لیے ناگزیر ہے کہ فیصلہ سازی کا اختیار ایجنسیوں کے بجائے سیاسی قیادت کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔جنوبی ایشیا میں آج ایسی قیادت تومو جود نہیں جو اس خطے کو تاریخ کے بوجھ سے نجات دلا سکے۔تاہم یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے جنگ کو سرحدوں تک محدود کر دیا جائے۔کیا نوازشریف، نریندرمودی اور اشرف غنی یہ کام کر سکتے ہیں؟ کیا وہ کوئی تاریخ ساز قدم اٹھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟
تبصرہ لکھیے