ہوم << کیا وفاق اور بلوچستان کے درمیان صلح حدیبیہ طرز کا معاہدہ ممکن ہے؟ ذیشان ماجد

کیا وفاق اور بلوچستان کے درمیان صلح حدیبیہ طرز کا معاہدہ ممکن ہے؟ ذیشان ماجد

بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جو قدرتی وسائل، جغرافیائی اہمیت، اور ثقافتی تنوع سے مالا مال ہے، لیکن دہائیوں سے یہاں احساسِ محرومی، سیاسی عدم استحکام، اور سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ مختلف حکومتوں نے وقتاً فوقتاً بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات کیے، لیکن حقیقی اور دیرپا امن اب بھی ایک خواب نظر آتا ہے۔

اگر ہم اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو صلح حدیبیہ ایک ایسا معاہدہ تھا جس نے بظاہر مسلمانوں کو وقتی طور پر پسپائی پر مجبور کیا، لیکن بعد میں یہی صلح اسلام کی عظیم فتح کی بنیاد بنی۔ کیا ایسا ہی کوئی معاہدہ وفاق پاکستان اور بلوچستان کے درمیان ہو سکتا ہے؟ کیا طاقت اور فوجی آپریشنز کے بجائے مذاکرات اور سیاسی حل بلوچستان کے دیرینہ مسائل کو ختم کر سکتا ہے؟

یہ مضمون انھی سوالات کا جائزہ لیتا ہے اور تجویز پیش کرتا ہے کہ اگر وفاق پاکستان اور بلوچستان کے درمیان صلح حدیبیہ کے اصولوں پر مبنی ایک مفاہمتی معاہدہ ہو، تو اس کے ممکنہ نکات کیا ہو سکتے ہیں اور یہ کس طرح دیرپا امن، ترقی، اور باہمی اعتماد کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

اگر پاکستان اور بلوچستان کے درمیان صلح حدیبیہ کی طرز پر ایک معاہدہ طے پاتا ہے، تو اس کی ممکنہ واضح شرائط درج ذیل ہو سکتی ہیں:
1. جنگ بندی اور مسلح کارروائیوں کا خاتمہ
پاکستان اور بلوچستان کے ناراض گروہ ہر قسم کی مسلح کارروائیاں بند کریں گے۔ پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں فوجی آپریشنز ختم کر دیے جائیں گے اور امن و امان کے لیے سول ادارے متحرک کیے جائیں گے۔ جو گروہ ہتھیار ڈال دیں گے، انہیں تحفظ اور بحالی کی مکمل ضمانت دی جائے گی۔

2. ناراض بلوچ گروہوں کے لیے عام معافی
جن لوگوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے، اگر وہ واپس قومی دھارے میں آنا چاہیں تو انہیں عام معافی دی جائے گی۔ جو افراد بلوچستان چھوڑ کر بیرون ملک جا چکے ہیں، انہیں واپس آنے کی اجازت دی جائے گی اور انہیں قانونی کارروائی سے مستثنیٰ رکھا جائے گا (سوائے ان کے جن پر سنگین مجرمانہ مقدمات ہوں)۔ معافی پانے والوں کے لیے معاشی بحالی اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

3. بلوچستان کے وسائل پر بلوچ عوام کا پہلا حق
�بلوچستان کی گیس، معدنیات، بندرگاہ اور دیگر وسائل پر سب سے پہلے بلوچ عوام کا حق تسلیم کیا جائے گا۔ بلوچستان کی آمدنی کا زیادہ حصہ صوبے پر خرچ ہوگا اور رائلٹی کے معاملات شفاف بنائے جائیں گے۔ بلوچستان میں مقامی لوگوں کو نوکریوں میں ترجیح دی جائے گی۔

4. جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت کارروائیوں کا خاتمہ
جبری گمشدہ افراد کی واپسی کو یقینی بنایا جائے گا یا ان کے بارے میں شفاف تحقیقات ہوں گی۔ ریاستی ادارے کسی بھی شخص کو غیر قانونی طور پر حراست میں نہیں رکھیں گے۔ ماورائے عدالت قتل کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

5. بلوچستان کو مزید سیاسی و آئینی اختیارات دینا
بلوچستان کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مزید خودمختاری دی جائے گی۔ 18ویں ترمیم کے بعد بھی اگر مزید مالیاتی اور انتظامی اختیارات دینے کی ضرورت ہو، تو اس پر مشترکہ مشاورت ہوگی۔ بلوچ عوام کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر سیاست میں بھرپور نمائندگی دی جائے گی۔

6. سیاسی عمل کی بحالی اور آزادانہ انتخابات
بلوچستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات یقینی بنائے جائیں گے۔ تمام بلوچ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو بغیر کسی دباؤ کے کام کرنے دیا جائے گا۔ جو بھی فریق سیاست میں حصہ لینا چاہے، اسے مکمل تحفظ اور آزادی دی جائے گی۔

7. تعلیم، روزگار اور ترقیاتی منصوبے
بلوچستان میں یونیورسٹیوں، اسکولوں، اور اسپتالوں کی تعداد بڑھائی جائے گی۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے نوکریوں اور کاروبار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ بلوچستان میں سی پیک سمیت تمام ترقیاتی منصوبوں میں مقامی لوگوں کو شامل کرنا لازمی ہوگا۔

8. بلوچ ثقافت اور زبانوں کا تحفظ
بلوچستان کی ثقافت، زبان، اور روایات کو ریاستی سرپرستی میں فروغ دیا جائے گا۔ اسکولوں اور کالجوں میں بلوچی، براہوی، اور پشتو زبانوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔

9. غیر ملکی مداخلت کا خاتمہ
بلوچستان کے مسائل کو صرف پاکستان کے اندرونی معاملے کے طور پر دیکھا جائے گا اور اس میں کسی بھی غیر ملکی طاقت کی مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر کوئی گروہ بیرونی طاقتوں سے مدد لے رہا ہے، تو وہ اس سے دستبردار ہو جائے گا۔

10. معاہدے پر عملدرآمد کے لیے مشترکہ کمیٹی
ایک نگران کمیٹی بنائی جائے گی، جس میں پاکستانی حکومت، بلوچ قیادت، سول سوسائٹی، اور آزاد ماہرین شامل ہوں گے، جو معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔ اگر کوئی فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا، تو نگران کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی۔ اگر اس معاہدے کو ایمانداری سے نافذ کیا جائے تو بلوچستان میں امن، ترقی، اور خوشحالی آ سکتی ہے، اور بلوچستان اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا رشتہ مضبوط ہو سکتا ہے۔

مفاہمت کی راہ یا محاذ آرائی کا تسلسل؟
بلوچستان کا مسئلہ محض ترقیاتی منصوبوں، وسائل کی تقسیم یا سیکیورٹی آپریشنز کا نہیں، بلکہ یہ ایک اعتماد کے بحران کا مسئلہ ہے، جو دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اگر پاکستان اور بلوچستان کے درمیان صلح حدیبیہ کی طرز پر ایک معاہدہ ہو، تو یہ محض ایک سیاسی اقدام نہیں بلکہ اعتماد سازی، امن، اور قومی یکجہتی کی طرف ایک بڑا قدم ہوگا۔ اس معاہدے کی کامیابی کا انحصار خلوصِ نیت، عملی اقدامات، اور معاہدے پر مکمل عملدرآمد پر ہوگا۔ اگر ریاست بلوچستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے، عوام کو ان کے حقوق دے، جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کرے، اور مقامی افراد کو ترقی میں برابر کا شریک کرے، تو بلوچستان پاکستان کا سب سے مضبوط، خوشحال، اور

پرامن صوبہ بن سکتا ہے۔
تاہم، اگر ماضی کی طرح صرف وعدے کیے جائیں، لیکن عملی طور پر کچھ نہ بدلے، تو نہ صرف بداعتمادی مزید گہری ہوگی بلکہ علیحدگی پسند عناصر کو تقویت ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان سیاسی مفاہمت اور پرامن حل کی راہ اپنائے گا، یا پھر محاذ آرائی اور طاقت کے استعمال کا سلسلہ جاری رہے گا؟ تاریخ گواہ ہے کہ طاقت عارضی حل دیتی ہے، لیکن مذاکرات اور انصاف ہی حقیقی اور دیرپا امن کی ضمانت ہیں۔

Comments

Avatar photo

ذیشان ماجد

ذیشان ماجد سینئر صحافی ہیں۔ روزنامہ امت کے کوئٹہ میں 6 سال تک بیورو چیف رہے۔ خبر نگاری، تحقیقی صحافت، سیاسی تجزیہ اور فیچر رائٹنگ میں مہارت رکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، سماجی مسائل اور حالات حاضرہ پر گہری تحقیق اور جامع تجزیہ ان کی تحریر کی خصوصیت ہے۔ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں

Click here to post a comment