ہوم << جوئیں نہیں’’لیکھیں ‘‘ بھی ختم کرنا ہوں گی-محمد بلال غوری

جوئیں نہیں’’لیکھیں ‘‘ بھی ختم کرنا ہوں گی-محمد بلال غوری

m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri
جب سانحہ کوئٹہ میں مرنے والوں کے کفن دفن سے فارغ ہو جائیں ،زخمیوں کی عیادت کرنے اور تصویریں جاری کرنے سے فرصت مل جائے،موم بتیاں جلانے اور مذمتی بیانات چلوانے کے فرائض سے سبکدوش ہو جائیں تو کیوں نہ چند سوالات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔جس ملک میں لوگ یقین کی حد تک مانتے ہوں کہ نائن الیون کا واقعہ امریکہ نے خود کرو ایا۔جہاں یہ تاثر بہت مضبوط ہو کہ کوئی مسلمان بے گناہوں کا خون نہیں بہا سکتا،یقینا یہ دہشتگردی ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی اور کلبھوشن جیسے بھارتی ایجنٹ کر رہے ہیں۔جس معاشرے میں کوئی یہ ماننے کو تیار نہ ہو کہ ایبٹ آباد آپریشن کے دوران مارےجانے والا اسامہ بن لادن اور ایران سے واپسی پر ڈرون حملے میں مارا گیا شخص مُلا منصور ہی تھا۔جو قوم اس طرح کے افسانوں اور افواہوں میں دلچسپی رکھتی ہو کہ ملالہ اور حامد میر پر کبھی حملہ ہوا ہی نہیں جب سوچ اتنی منفی ہوجائے تو کیا کہیں۔
جس ملک میں ایسی بے پر کی اڑائی جاتی ہوں کہ نواز شریف کا آپریشن ہوا ہی نہیں بلکہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا اور غضب خدا کاجس ملک میں تجزیہ نگار اور ارکان اسمبلی نہایت ڈھٹائی سے یہ بیہودہ باتیں کرتے پھرتے ہوں کہ جب بھی تحریک انصاف کوئی تحریک چلانے لگتی ہے اس طرح کا واقعہ ہو جاتا ہے اس لئے ممکن ہے یہ حملہ نوازشریف نے ’’را‘‘ کی مدد سے کروایا ہو۔اس ملک میں دہشتگردی کیسے ختم ہو سکتی ہے اور کوئی نیشنل ایکشن پلان کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟ممکن ہو تو کسی معالج سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ ایک شخص جو سرطان کے موذی مرض میں مبتلاہے مگر شوکت خانم اسپتال سے علاج کروانے کے بجائے کسی میڈیکل اسٹور سے نزلہ ،زکام اور کھانسی کی دوائی لے رہا ہے ،کیا وہ کبھی صحتیاب ہو سکتا ہے؟
یوں تو ہر معاملے پر قومی قیادت منقسم و منتشر ہوتی ہے مگر کوئٹہ دھماکے کے بعد سویلین اور ملٹری لیڈرشپ میں اتفاق رائے پایا گیا کہ یہ حملہ پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف سازش ہے کیونکہ سی پیک دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔قومی قیادت نے جو فرمایا وہ سب قوم کا سرمایہ مگر جان کی امان پائوں توعرض کروں کیا اقتصادی راہداری نے کوئٹہ کے سول اسپتال سے ہو کر گزرنا تھا یا پھر بلال انور کاسی اور باز محمد کاکڑ اس منصوبے کے چیف انجینئر تھے؟لگے ہاتھوں یہ گتھی بھی سلجھا دیں تو بہت نوازش ہو گی کہ بلوچستان کو حالات تو سی پیک منصوبے کے اعلان سے پہلے ہی خراب تھے
گزشتہ چند برس کے دوران بلوچستان سےمبینہ طور پر جن ایک ہزار سوختہ انسانوں کی مسخ شدہ لاشیں بر آمد ہوئیں اور جو گمشدگیاں ہوئیںاس بارے میں کیا کہا جائے؟ویسے اس منطق پر مجھے بھولا حلوائی یاد آ رہا ہے جس کی بیوی اور بچوں کو کسی نے ذبح کر ڈالا ۔جب لوگ پرسہ دینے آئے اور اظہار افسوس کرنے لگے توبھولے حلوائی نے سینہ تان کر کہا ،یہ سب میرے دشمنوں کا کیا دھرا ہے بہت عرصے سے میری حلوائی کی دکان پر ان کی نظریں ہیں لیکن میں یہ دکان کسی قیمت پر نہیں ہتھیانے دوں گا۔بلوچستان کے وکلاء اور صحافی مارے گئے تو کیا ہوا ،ہم بھی سی پیک نامی حلوائی کی دکان کسی قیمت پر ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔دیکھئےسی پیک کو اس دہشت گردی کی وجہ قرار دینااور لوگوں کو یہ بات سمجھانا مشکل ہے،دہشت گردی کی وجوہات کچھ اور ہیں۔مجھے اس استدلال سے مکمل طور پر اتفاق ہے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔ ہمارا دشمن بہت کمینہ اور کم ظرف ہے ،چھپ کر وار کرتا ہے۔ہم نے اسے خیبر پختوانخوا سے نکالا تو اب اس نے بلوچستان کا رُخ کرلیا ہے۔دہشتگردی کے خلاف آپریشن کی کامیابی نے دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اب وہ اہم دفاعی تنصیبات یا سیکورٹی فورسز پر حملے کرنے کے قابل نہیں رہا اس لئے سوفٹ ٹارگٹ ڈھونڈتا پھرتا ہے
،معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔یہ تو سراسر دھاندلی ،بے ضابطگی اور فائول پلے ہے ناں ۔کیوں نہ دشمن کے خلاف کسی عالمی فورم پر شکایت درج کروائی جائے کہ وہ لڑائی کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ارباب اختیار کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ کوئٹہ بم دھماکے سمیت دہشتگردی کے تمام واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ملوث ہے۔اگر ’’را‘‘اتنی طاقتور ہے کہ محمود اچکزئی جیسے لوگوں کو رکن قومی اسمبلی منتخب کروا سکتی ہے بلکہ نوازشریف کو وزیراعظم بنوا سکتی ہے تو پھر اس طرح کی کارروائیاں کرنا تویقینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گا۔چلو شکر ہے ڈور کا کوئی سرا تو ہاتھ آیا ۔مگر اب یہ اڑچن ہے کہ ’’را‘‘ کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کیسے کیا جائے؟صرف را پر الزام عائد کرکے اپنی غلطیوں کو چھپالینا مناسب نہیں ۔
اس افسوسناک سانحہ کے بعد نہ صرف وزیراعظم نواز شریف کوئٹہ پہنچے بلکہ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی کوئٹہ کا دورہ کیا۔زخمیوں کی عیادت کرنے کے بعد انہوں نے خودکش حملے میں مرنے والوں کے لواحقین کے لئے ساڑھے سات کروڑ کا چیک بھی دیا۔شہباز شریف کو بلوچستان کے شہریوں سے بیحد پیار ہے اسی لئے وہ ہر مشکل وقت میں سب سے پہلے پہنچتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ شہداء کے ورثاء کے لئے امدادی چیک دیتے وقت وہ یہ وضاحت بھی فرما دیتے کہ چھ سال پہلے انہوں نے پنجاب حکومت کی طرف سے کوئٹہ میں امراض قلب کااسپتال قائم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا ،کیا کبھی پورا ہو گا ؟یا پھر بلوچوں سے کئے گئے دیگر وعدوں کی طرح محض دلاسہ ہی ثابت ہوگا؟اگرچہ ماحول سوگوار ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے مگر رنج والم کی اس گھڑی میں ایک لطیفہ بھی سن لیجئے تاکہ آپ کو معلوم ہوکہ کوئٹہ سول اسپتال میں خودکش حملے کاحکومتی سطح پر کس قدر سخت نوٹس لیا گیا ہے۔تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے کوئٹہ خودکش حملے کو روکنے میں ناکامی پر ڈی آئی جی کوئٹہ منظور سرور چوہدری کو عہدے سے ہٹا کر اوایس ڈی بنا دیا ہے۔ثناء اللہ زہری بھی بھولے بادشاہ ہیں ،اس قدر سخت ایکشن لینے کی کیا ضرورت تھی؟اس واقعہ کے بعد ذمہ داران کا تعین کر کے کڑی سزا ہی دینا مقصود تھا تو متعلقہ ایس ایچ او کو معطل کردیتے یا پھر سول اسپتال کے باہر پولیس ناکے اور چوکی انچارج کو لائن حاضر کر دیتے ،اللہ اللہ خیر صلیٰ۔
امید افزا بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ’’کومبنگ آپریشن‘‘ کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ’’کومبنگ آپریشن‘‘ کی سادہ ترین تشریح یہ ہے کہ جب بالوں میں جوئیں پڑ جاتی ہیں تو ان سے نجات پانے کے لئے پورے سر میں باریک کنگھی پھیری جاتی ہے۔ ’’کومبنگ آپریشن‘‘ سے جوئیں تو کسی حدتک مر جاتی ہیں مگر ان کے انڈے یعنی ’’لیکھیں‘‘ موجود رہتی ہیں اور پرورش پانے کے بعد یہ پھر سے خون چوسنے لگتی ہیں۔ اگر مستقبل میں کوئٹہ جیسے کسی سانحہ سے بچنا ہے تو جوئیں ہی نہیں، یہ’’لیکھیں‘‘ بھی ختم کرنا ہوں گی۔