ہوم << کوئٹہ حملہ اور ہماری ذہنی پستیاں - محمد بلال

کوئٹہ حملہ اور ہماری ذہنی پستیاں - محمد بلال

محمد بلال اس سال کوئٹہ میں چار حملے ہوئے جن میں کوئی 150 کے قریب لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ کوئٹہ میں ہونے والا یہ حملہ اس سال کا دوسرا بڑا حملہ تھا، پہلا حملہ گلشن اقبال لاہور میں ہوا جس میں 80 کے قریب افراد شہید ہوئے۔ سب سے پہلے تو مجھے اس بات کا افسوس ہے جو ہمارے دوست اس حملے کو بلوچ بھائیوں کی قربانی بتا کر وفاق اور پنجاب کی باسی کڑاہی میں ابال پیدا کر رہے ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ جب دشمن ’’پنجابی‘‘ اور’’بلوچ‘‘ کی تفریق سے ماورا ہو کر حملے کر رہا ہے، ایسے میں ہمارا ان فضول بحثوں کو اٹھانا انتہا درجے کی حماقت ہے۔ یہ وقت تعزیت یا تسلی کا ہے، ایک نئے عزم کا ہے کہ ظالموں سے حساب ہوگا نہ کہ یہ بات کہنے کا ’’بلوچوں‘‘ نے یہ قربانیاں دیں اور ’’پنجابیوں‘‘ نے یہ کام کیے۔ صرف اسی سال میں ہی دیکھ لیں دونوں کی شہادتیں برابر ہوں گی۔ واللہ ہمارے لیے یہ دونوں خون عظیم ہیں، دونوں ہی معصوم و مظلوم ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
کوئٹہ میں حالیہ حملے کو اگر دیکھا جائے تو کئی جہتیں سامنے آتی ہیں. یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب کشمیر میں ’’تحریک‘‘ پورے عروج پر ہے اور دنیا میں بھارت کی سبکی ہو رہی ہے۔ پاکستان اس وقت کشمیر کے مقدمہ کو احسن انداز میں پیش کر رہا تھا۔ ایسے وقت میں اس حملہ کا ہونا دراصل پاکستان کو ’’نفسا نفسی‘‘ کی صورتحال سے دوچار کرنا ہی لگتا ہے کہ بھائی پہلے اپنے گھر کو سنبھالو پھر ’’کشمیریوں‘‘ کا سوچنا۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ کسی بھی کیس میں سب سے پہلا شک اس پر ہی کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرے ۔ اگر دیکھا جائے تو اس کا فائدہ ظاہر ہے بھارت کو ہی گیا۔
اس کا دوسرا پہلو ریاست کو عوام کی نظر میں ناکام ثابت کرنا اور یہ باور کرانا ہے کہ ہم ابھی’’زندہ‘‘ ہیں گو آخری سانسوں تک ہی پہنچ گئے ہیں ۔ TTP کے یہ حملے صرف اس لیے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مطمئن کر سکیں کہ ہماری کمر ابھی تک نہیں ٹوٹی۔ اگر ہم ضرب عضب کے بعد کی صورتحال کو دیکھیں تو ان دہشت گردوں کے حملے مرکزی اور گنجان آباد جگہوں اور صوبوں سے ہٹ کر ایسے علاقوں اور صوبوں میں شفٹ ہو چکے ہیں جو آبادی میں کم اور رقبے میں بہت زیادہ ہیں، جہاں ان کی سرویلنس کافی مشکل ہوتی ہے۔ قوم میں بے یقینی کی صورتحال پیدا کرنا ہی دراصل اس حملے کا مقصد تھا کہ ہم دشمن کے مقابلے میں ناکام ہوئے ہیں۔
ہمارے چند دانشور دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کی اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے پر تلے ہیں چاہے غیر دانستہ طور پر ہی سہی۔ جن کے سارے تجزیے کا لب لباب صرف اتنا ہی نکلے گا کہ یہ ریاست کی ناکامی ہے۔ سکیورٹی ادارے پہلے کہاں تھے؟ سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے یہاں سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ جب کوئی قوم ایسی فضول باتوں میں الجھتی ہے اور اپنے مخالف کے پروپیگنڈہ سے ’’فرسٹریشن‘‘ کا شکار ہو جاتی ہے تو اس کی تباہی تبھی شروع ہوتی ہے کیونکہ تب وہ غیردانستہ طور پر اپنے لاشعور میں اپنے دشمن کو ’’طاقتور‘‘ سمجھ بیٹھتی ہے چاہے وہ گیدڑ کی طرح میدان سےجنگ سے بھاگ ہی کیوں نہ چکا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سوشل میڈیا پر ایک احساس کمتری، بزدلی اور الزام تراشی کی فضا تو نظر آئے گی لیکن ہمت، بہادری، صبر و استقامت اور عزم میلوں تک نظر نہیں آئے گا۔ اگر ہم دشمن کے اس پروپیگنڈہ کو سمجھنا چاہیں تو حالیہ دنوں میں ترکی کا مارشل لا ایک واضح مثال ہے۔ آخری وقت تک باغیوں نے یہ باور کرایا کہ اردگان گیا اور عوام جو لڑنے آئی ہے اپنی کمر تڑوا بیٹھی ہے، میڈیا بھی ساتھ تھا تو قوم کیوں نہیں ہاری، آخر وہ ایک فون کال پر ہی کیوں یقین کر بیٹھی؟ وجہ صرف اتنی ہے کہ وہ قوم دشمن کے ہتھکنڈوں کو سمجھتی تھی اور جانتی تھی کہ یہ وقت اس بحث کا نہیں ہے کہ اردگان ’’جمہوریت پسند‘‘ ہے یا ’’ڈکٹیٹر‘‘ بلکہ وہ جانتی تھی کہ اردگان ڈکٹیٹر ہویا جمہوری، ہمارا دشمن نہیں۔ جبکہ یہاں معاملہ برعکس ہے، ہر حملے کے بعد ہمیں صرف یہ دکھائی دیتا ہے یہ حملہ آرمی نے کرایا، ن لیگ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے ایسا را کی مدد سے کر رہی ہے۔ جب تک ہم اس پستی سے نہیں نکلیں گے تب تک ہم اپنے دشمن سے نہیں جیت سکتے ۔ خدارا دشمن کو پہچانو

Comments

Click here to post a comment