ہوم << ترک محاورے اور ضرب الامثال - عدنان فاروقی

ترک محاورے اور ضرب الامثال - عدنان فاروقی

یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں محاورے اور ضرب الامثال ایسے ہوتے ہیں جیسے بریانی میں تلی ہوئی پیازبغیر ان کے مزہ پھیکا اور بغیر نمک کے کھانے جیسا! اب بھلا ترک زبان کیسے پیچھے رہتی؟ ان کے ہاں بھی ایسے محاورے ہیں کہ بندہ سن کر دنگ رہ جائے اور پھر سوچنے پر مجبور ہو کہ یہ ترک آخر کھاتے کیا ہیں جو ان کے محاورے اتنے چٹپٹے ہوتے ہیں؟
مثال کے طور پر، ایک مشہور ترک محاورہ ہے
Kaz gelecek yerden tavuk esirgenmez (جہاں سے مرغابی آئے، وہاں مرغی کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں۔)
ترجمہ کیا جائے تو ایسا لگے جیسے کوئی بڑا تاجر چھوٹے نقصان کی پروا نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آگے جا کر بڑا منافع ہونے والا ہے۔ گویا کہ "نیکی کر دریا میں ڈال، اور کسی دن دریا میں جال بھی ڈال

اسی طرح ایک اور دل چسپ محاورہ دیکھیے
Üzüm üzüme baka baka kararır (انگور، انگور کو دیکھ دیکھ کر کالا ہو جاتا ہے۔)
ترجمہ کیجیے تو مطلب نکلتا ہے کہ انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے اثر لیتا ہے۔ اگر دوست نالائق ہوں تو آپ بھی اسی راہ پر چل نکلیں گے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے ہم بچپن میں امی کے دوستوں کی باتیں سن کر حیران ہوتے تھے کہ فلاں آنٹی کے بچے کتنے فرماں بردار ہیں، لیکن ہمارے کیس میں "دوستوں کے دوست اور نالائقوں کے سردار!"

اب ذرا اس محاورے پر غور کریں
Dağ dağa kavuşmaz, insan insana kavuşur (پہاڑ پہاڑ سے نہیں ملتے، لیکن انسان انسان سے ضرور ملتے ہیں۔)
یہ تو بالکل ہمارے اس محاورے کی طرح ہے: "دنیا گول ہے!" یعنی جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے وہ ہو کر رہتا ہے۔ رشتے بچھڑتے ضرور ہیں، مگر قسمت کسی نہ کسی بہانے ملاقات کرا ہی دیتی ہے۔ چاہے وہ کسی شادی کی پلیٹ میں آخری گلاب جامن پر ہونے والی کشمکش کے دوران ہو!

اور آخر میں ایک ایسا محاورہ جو کسی بھی ترک دوست کو سنا دیا جائے تو وہ خوش ہو جائے گا
Tatlı yiyelim, tatlı konuşalım (میٹھا کھائیں، میٹھا بولیں۔)
یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے ہمارے یہاں چائے کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ مطلب یہ کہ جب میٹھا کھایا ہے تو زبان بھی میٹھی ہونی چاہیے۔ لیکن مسئلہ تب آتا ہے جب کوئی دوست آخری چاکلیٹ لے کر کہہ دے، "بھئی، میٹھا کھا کر میٹھا ہی بولا کرو

اور یہ والا محاورہ تو خاص طور پر ہمارے ہاں کے کچھ "من موجی" لوگوں کے لیے ہے
Balık baştan kokar (مچھلی ہمیشہ سر سے سڑنا شروع کرتی ہے۔)
اس کا مطلب بالکل سیدھا ہے کہ اگر کسی ادارے، خاندان یا قوم میں خرابی ہو تو اس کی جڑ اوپر سے شروع ہوتی ہے۔ گویا جیسے سیاست میں اکثر کہا جاتا ہے کہ اگر بادشاہ ہی سست ہو تو سلطنت کا اللہ ہی حافظ!

ایک اور دلچسپ محاورہ
İki karpuz bir koltuğa sığmaz (دو تربوز ایک بغل میں نہیں سما سکتے۔)
یہ سن کر ہمارے وہ دوست شرمندہ ہو جائیں گے جو بیک وقت دو الگ الگ کاموں میں ماہر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بندہ ایک وقت میں ایک ہی کام ڈھنگ سے کر سکتا ہے۔ یعنی یا تو چائے بنا لو یا شاعری کر لو، دونوں ساتھ نہیں چلیں گے!

تو صاحبو، یہ تھے کچھ چٹ پٹے ترک محاورے! ان میں وہی لذت ہے جو کباب میں ہوتی ہے، وہی چٹخارہ جو مرچوں میں ہوتا ہے،