ہوم << یہ کس کی ناکامی ہے؟-حامد میر

یہ کس کی ناکامی ہے؟-حامد میر

Democracy word cloud concept. Vector illustration

hamid_mir1 یہ چارماہ پہلے کی بات ہے، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کوئٹہ کی طرف سے ایک انٹرنیشنل سوشل سائنسز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اس کانفرنس کے آخری سیشن میں مجھے چین پاکستان اقتصادی راہداری پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ کانفرنس میں شرکت کے لئے میں کوئٹہ پہنچا اور ابھی ائیر پورٹ سے باہر بھی نہیں آیا تھا کہ وکیل رہنما علی احمد کُرد صاحب کا فون آگیا اور انہوں نے کوئٹہ میں خوش آمدید کے ساتھ شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمیں اپنی آمد کی اطلاع نہیں دی لیکن ہمیں آپ کی آمد کا پتہ چل چکا ہے۔ میں نے کُرد صاحب کو ایک طویل وضاحت پیش کی اور کہا کہ مجھے ویمن یونیورسٹی کی کانفرنس کے فوراً بعد واپس اسلام آباد جانا ہے اس لئے آپ کو اطلاع نہیں دی تاکہ آپ اپنی روایت کے مطابق مجھے لنچ یا ڈنر پر قابو نہ کرسکیں۔ کُرد صاحب کے لئے یہ وضاحت ناقابل قبول تھی لہٰذا میں نے فوری طور پر معافی طلب کرلی اور انہوں نے بڑی شان بے نیازی کے ساتھ معافی قبول کرتے ہوئے آئندہ اس قسم کی گستاخی سے اجتناب کا مشورہ دیا۔ یہ ان کی محبت کا ایک انداز تھا جس نے میرے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔
ویمن یونیورسٹی کی طرف جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ باز محمد کاکڑ، بلال کاسی، کامران مرتضیٰ، ساجد ترین، منیر کاکڑ، چاکراند اوربہت سے دیگر وکلاء کو میری کوئٹہ کا آمد کا پتہ چل گیا تو سب سے معافی مانگنی پڑے گی۔ ان سب وکلاء کے ساتھ2007 کی تحریک کے دوران ایک تعلق پیدا ہوا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا گیا۔2012میں سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری کی حدود میں ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے مجھ پر حملہ کردیا تو باز محمد کاکڑ اور ظہور شاہوانی سمیت بہت سے سینئر وکلاء میرے ارد گرد دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔میں کوئٹہ میں موجود بہت سے وکیل، صحافی اور سیاستدان دوستوں کو یاد کرتا ہوا ویمن یونیورسٹی پہنچ گیا۔ یہ وہ یونیورسٹی تھی جسے 15 جون2013کو ایک بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جس میں بہت سی طالبات کے پرخچے اڑ گئے۔ زخمی طالبات کو بولان میڈیکل کمپلیکس ہاسپٹل لایا گیا۔یہاں ان کے لواحقین اور ضلعی انتظامیہ کے لوگ اکٹھے ہوگئے تو ان سب کو بھی ایک بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈی سی کوئٹہ عبدالمنصور کاکڑ اسی ہاسپٹل میں شہید ہوگئے۔ کچھ دن کے بعد8اگست 2013کو اسی شہر کوئٹہ میں ایک پولیس افسر کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ اسی شام پولیس لائنز کوئٹہ میں اس کی نماز جنازہ پر خود کش حملہ کیا گیا ا ور بہت سے پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔ کوئٹہ شہر کی ہزارہ برادری پر ایسے کئی خوفناک حملے ہوچکے تھے لیکن ویمن یونیورسٹی کی طالبات کا مضبوط حوصلہ دیکھ کر امید پیدا ہوئی کہ بہت جلد ہم دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا پالیں گے۔ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی بہادر طالبات کے عزم و حوصلے پر میں نے ایک کالم لکھا جو اس یونیورسٹی کی طالبہ زارا احمد کے نام تھا ۔ وہ بم دھماکے کے بعد لاپتہ ہوگئی کیونکہ وہ بارود کے ساتھ ایسی بکھری کہ اس کا کوئی نشان نہ مل سکا۔
کوئٹہ کی وومن یونیورسٹی کی طالبات کے بارے میں میرا کالم.....’’زارا کی کہانی، بلوچستان کی زبانی‘‘شائع ہوا تو باز محمد کاکڑ کا فون آگیا۔ انہوں نے بھی کُرد صاحب کی طرح شکوے شکایتیں کرنے کے بعد کہا کہ زارا احمد کا المیہ پورے بلوچستان کا المیہ ہے۔ زارا احمد کی والدہ اور والد اپنی بیٹی کے غم میں آگے پیچھے فوت ہوگئے لیکن بلوچستان میں ایسے بہت سے سیاسی کارکن اور وکیل ہیں جن کی گمشدگی ایک معمہ ہے، پتہ نہیں وہ زندہ ہیں یا مردہ، ان کے لواحقین روزانہ جیتے ہیں روزانہ مرتے ہیں، ہم ان لاپتہ افراد کی بازیابی کی بات کریں تو غدار کہلاتے ہیں، کل کو ہمیں بھی ماردیا جائے گا لیکن یاد رکھیے گا جب تک اس ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی، اس ملک کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ باز محمد کاکڑ نے شکوہ کیا اور کہا کہ آپ لاپتہ افراد کی بات کرتے تھے اب آپ نہیں کرتے۔ میں نے اپنے اس پیارے دوست کے شکوے کے جواب میں کہا کہ جب عدالتوں میں مقدمات کی سماعت نہ ہو، کہیں متاثرین کا احتجاج نظر نہ آئے، آپ جیسا کوئی وکیل آواز بلند نہ کرے تو میرے جیسا صحافی ہوا میں تیر نہیں چلا سکتا۔ باز محمد کاکڑ نے ذرا تیز لہجے میں کہا کہ ٹھیک ہے میں پریس کانفرنس کروں گا، دیکھتا ہوں کون میری پریس کانفرنس نشر کرتا ہے کون نہیں کرتا۔ پھر انہوں نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ایک جج کا بیٹا اغواء ہوجائے تو اس کی بازیابی کے لئے پوری ریاست حرکت میں آجاتی ہے لیکن وکیل اغواء ہوجائے یا لاپتہ کردیا جائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انہوں نے کہا میں اس امتیازی رویے کا باغی ہوں باغی ہوں۔
کچھ دن پہلے اسلام آباد میں سردار اختر جان مینگل کی طرف سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں ایک کانفرنس بلائی گئی جس میں باز محمد کاکڑ کے ساتھ ملاقات ہوئی تو وہ کچھ بجھے بجھے سے تھے۔ میں نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگے کہ بلوچستان کے بارے میں میڈیا عوام کو گمراہ کررہا ہے، اصل حقائق سامنے نہیں آ رہے. ہمیں روزانہ دھمکیاں ملتی ہیں، اب آپ کو ہماری باتوں پر اس وقت یقین آئے گا جب آپ کو ہمارے بارے میں بھی کوئی خبر ملے گی۔ اس دن میں نے آئی آر رحمان صاحب سے کہا کہ ہمارا میڈیا تیزی کے ساتھ اپنی آزادی کھو رہا ہے۔ اس کانفرنس میں میری اور راشد رحمان کی کوشش سے متفقہ قرارداد میں یہ نکتہ شامل کر لیا گیا کہ بلوچستان میں میڈیا کو درپیش خطرات اور دھمکیوں کا سدباب کیا جائے اور میڈیا پر غیراعلانیہ پابندیاں ختم کی جائیں۔ قرارداد کی منظوری پر میں نے باز محمد کاکڑ سے پوچھا کہ آپ مطمئن ہوئے یا نہیں؟ انہوں نے بڑی اپنائیت سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ مجھے آپ کی نیت اور خلوص پر کوئی شک نہیں لیکن میں بتا رہا ہوں معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور ٹھیک ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ یہ میری باز محمد کاکڑ کے ساتھ آخری گفتگو تھی۔ 8 اگست کو بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر بلال کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کی خبر ملی تو فوراً میرے ذہن میں ایک بڑے خطرے کی گھنٹی بجی۔ میں نے سوچا کہ بلال کاسی کے جنازے میں بلوچستان کے تمام اہم وکلاء اور سیاستدان اکٹھے ہوں گے، کہیں ان کے جنازے پر حملہ نہ ہوجائے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سول ہاسپٹل کوئٹہ میں بم دھماکے کی خبر آگئی اور کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ باز محمد کاکڑ شہید ہوگئے۔
کوئٹہ کے سانحے میں وکلاء، صحافیوں اور عام لوگوں کی موت پر پورا پاکستان غمگین ہے لیکن مجھے باز محمد کاکڑ کے ساتھ ہونے والی گفتگو بار باریاد آ رہی ہے۔ اس سانحے میں تربت کے قریب مند کے ایک غریب گھرانے کا وکیل چاکر رند بھی شہید ہوگیا جو ہمیشہ میرانی ڈیم کے متاثرین کے لیے آواز اٹھاتا رہتا تھا۔ سینیٹر ڈاکٹر جہاں زیب جمال دینی کے جواں سال صاحبزادے سنگت جمال دینی کا چہرہ بار بار میری نظروں کے سامنے گھومتا ہے۔ اس خاندان نے پچھلے چند سالوں میں بہت لاشیں اٹھائی ہیں اور غداری کے الزامات کا سامنا بھی کیا ہے۔ آج پورا پاکستان باز محمد کاکڑ سے سنگت جمال دینی تک سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے سب افراد کو پاکستان کے قابل فخر سپوت قرار دے رہا ہے۔ کاش! ان شہداء کو ان کی زندگی میں بھی اتنی ہی عزت اور پذیرائی ملتی۔ کل تک یہ’’را‘‘ کے ایجنٹ تھے۔ آج’’را‘‘ کی سازش کا نشانہ بن گئے۔ مان لیا کہ یہ سب’’را‘‘ نے کیا ہے۔ کوئٹہ میں ایسے سانحے2003سے ہو رہے ہیں ۔ 13سال گزر گئے’’را‘‘ کی سازشیں نہیں رک سکیں۔ یہ کس کی ناکامی ہے؟