ہوم << گستاخانہ محاورات، ضرب الامثال کا استعمال - سیّد سلیم رضوی

گستاخانہ محاورات، ضرب الامثال کا استعمال - سیّد سلیم رضوی

بہت سے لوگ اپنی روز مرہ کی گفتگو میں بعض الفاظ، محاورات اور ضرب الامثال کے حوالے سے بہت بےاحتیاطی برتتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیرکہ اس کے باعث ہم بہت بڑی غفلت اور خطا کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دعوت دے رہے ہیں۔ آج ہم آپ کو اُردو زبان میں رائج کچھ ایسے ہی محاورات اور ضرب الامثال کے بارے میں بتائیں گے تاکہ کہیں آپ بھی نادانی میںان الفاظ کو اپنی روز مرہ کی گفتگو کا حصہ نہ بنا لیں، اور اس ’’خطاکاری‘‘ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

1. صلوا تیں سُنانا: (محاورہ)
(فیروزُاللُّغات کے مطابق صلوات کا معنی اور مفہوم ہے: برکتیں اور رحمتیں، جو نبی پاک ﷺ کے حق میں ہوں۔ یہ صلوٰۃ کی جمع بھی ہے، جس کے معانی ہیں درود، دُعا اور نماز)
مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اُردو محاورہ میں اس لفظ کے معانی کیا ہیں؟ گالی اور دُشنام. لہٰذا ’’صلواتیں سُنانا‘‘ کا مطلب ٹھہرا ’’گالیاں دینا، بُرا بھلا کہنا‘‘۔ اس لفظ کو محاورے کی زبان میں، اسی مفہوم میں ہم آئے دن بے دریغ استعمال کرتے رہتے ہیں، نفع نقصان کا فرق آپ خود ہی اپنی سمجھ بوجھ سے معلوم کر سکتے ہیں۔

2. نمازیں بخشوانے گئے اور روزے گلے پڑ ے: (کہاوت)
(اُردو مفہوم) ’’ایک کام سے پیچھا چھُڑانے کی کوشش میں دُوسری مہم (یا مصیبت) ذمّے پڑ گئی۔‘‘
اوّل تو اِسلام کی بُنیادی عبادات کے متعلق ایسا گُستاخانہ تصور اورطرز تکلّم بہت بڑی جسارت کے زُمرے میں آتا ہے، جو ہمارے دین کے ان دو ارکان کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے، مگر یہ جسارت اس پس منظر میں اور بھی سنگین ہو جاتی ہے جب اس کا اشارہ یا حوالہ حضور پاک ﷺ کے سفر معراج سے متعلق اس روایت سے جا جڑتا ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے روبرو اُمّت کے لیے سب سے پہلے پچاس نمازوں کو فرض قرار دِیا مگر حضور پاک ﷺ نے اپنی اُمّت پر جان بوجھ کر نمازوں کی تعداد میں کمی کی سفارش فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعداد کے کئی بار تعیّن کے بعد بالآخر پانچ نمازوں کی حتمی تعداد مقرر کر دی گئی۔ بعض جاہل لوگ یہ تک بیان کر دیتے ہیں کہ اسی موقع پر جب روزوں کی فرضیت کی باری آئی تو پہلے زیادہ مُدّت کے روزے تجویز ہُوئے مگر اسے بھی اُمت کے لیے برداشت سے زیادہ پا کر آخر کار ایک مہینہ کے روزے فرض کر دیے گئے۔ حالانکہ واقعہ معراج مکی زندگی میں پیش آیا جبکہ روزے مدنی دور میں فرض ہوئے۔ یہ من گھڑت کہاوتیں اسلام دُشمنوں نے ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے مسلمانوں کو دین سے دُور کرنے کے لیے زبان و بیان میں رائج کی ہیں جنھیں لوگ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی گفتگو کا حصہ بنانے میں عار محسوس نہیں کرتے اور کم علمی اور جہالت کی بنا پر کفر کی حد تک چلے جاتے ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سفر معراج کے اس واقعے کو بنیاد بنا کر ارکان دین کا مذاق اُڑانے کا حوصلہ وہی شخص کر سکتا ہے جو نماز اور روزے سے بےزار اور سرے سے ان فرائض کا منکر اور تارک ہو۔ مگر ہمارے لیے زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہم نتائج و عواقب کا احساس اور ادراک کیے بغیر بڑی سہولت سے ایسے الفاظ و محاورات کو غلط مفہوم میں بول جاتے ہیں اور شرکائےگفتگو بھی اسی سہولت سے انہیں سن کر ہضم کر جاتے ہیں۔

3. یار غار: (محاورہ)
یہ تلمیح باقاعدہ طور پر ایک مخصوص محاورے کا روپ دھار گئی ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ’’یارِغار‘‘ جلیل القدر صحابی رسول ﷺ اور خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اُردو زبان میں رائج لقب یا خطاب بھی ہے، جنہیں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے دوران نبی پاک ﷺ کی ہمراہی میں غار ثور میں قیام کا شرف حاصل ہُوا، مگر اُردو زبان و بیاں میں اسی واقعے کی نسبت سے کسی بھی شخص کے وفادار یا ’’حد سے زیادہ‘‘ وفادار ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے (بالعموم استہزا، مذاق اور طنز کے طور پر) اسے’’یارِغار‘‘ سے موسوم کر دیا جاتا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کی یہ حرکت ایک لحاظ سے نبی پاک ﷺ اور ان کے جاں نثار ساتھی، خلیفۂ اوّل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب ہے۔ اللہ ہمیں سوچنے سمجھنے اور راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

4. خُدا واسطے کا بَیر: (محاورہ)
طنز اور مذاق میں بولے جانے والے اس محاورے کا تعلق غالباً تاریخ اسلام کے اس مشہور واقعے سے ہے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک خودسر یہودی پر غلبہ پا کر اسے قتل کر ڈالنے کا ارادہ فرمایا، اس حالت میں کہ وہ یہودی پُشت کے بل زمین پر پڑا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ اس کے سینے پر سوار تھے۔ موت کو اس قدر یقینی طور پر قریب پا کر اُس یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرۂ مبارک پر تھوک دِیا
کہ نکلے آخری نفرت کی حسرت
اسی حیلے دل کُفر آشنا سے
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یکسر غیرمتوقع ردعمل نے یہودی کو حیران اور ششدر کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس گستاخانہ حرکت پر انتقام کے جذبے سے مغلوب ہو کر اُسے مار ڈالنے کے بجائے یہ کہہ کر معاف کر دِیا کہ اگر میں اس حالت میں تجھے قتل کر دیتا تو یہ میرا اور تُمھارا ذاتی معاملہ بن جاتا جبکہ میں ہر کام صرف اپنے اللہ کی خوشنودی اور رضا کی خاطر کرتا ہوں اور فقط اُن لوگوں سے بیر رکھتا ہوں جو میرے اللہ سے بیر رکھتے ہیں۔ اب یار لوگوں نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر ’’خُدا واسطے کا بیر‘‘ نامی محاورہ گھڑ لیا ہے، جس کا مطلب کُچھ اس طرح ہے کہ جب کوئی شخص کِسی سے خواہ مخواہ رنجیدۂ خاطر ہو، جس کی کوئی ظاہری اور معقول وجہ بھی نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں کو فلاں کے ساتھ تو خُدا واسطے کا بَیر ہے۔‘‘ اب آپ غور فرمائیے کہ کہاں وہ بات اور کہاں یہ منطق؟ الفاظ کو منفی مفہوم دینے والے کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس واقعے کے بےمثال اخلاقی پہلو کو سامنے رکھ کر اور اسے اچھے معانی پہنا کر رائج کرتا کہ جس نے اُس یہودی کا پتھر دل موم کر دیا تھا اور وہ فی الفور کلمۂ طیبہ کا ورد کرتے ہُوئے دین حق پر ایمان لے آیا تھا۔

5. بسم اللّٰہ ہی غلط: (محاورہ)
کیا کُفریہ کلمہ ہے. بھلا بسمِ اللہ بھی غلط ہو سکتی ہے؟ یہ محاورہ تخلیق کرنے والے کا مطلب تو خیر یہ ہو گا کہ جس آدمی کو بسمِ اللہ ہی ٹھیک طرح سے پڑھنی نہ آئے، اُس سے قُرآن پاک کی تلاوت کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے، اِسی طرح کام کی اِبتدا میں غلطی کرنے والا یقیناً اس کام کو بگاڑ کر دَم لےگا۔ مگر آپ ذرا الفاظ کی ترتیب اور تشکیل پر غور فرمائیں، اس سے کیا مفہوم برآمد ہو رہا ہے؟ ہم تو بسم اللہ کو (معاذاللہ) غلط کہنے اور سوچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے، ایسا حوصلہ وہی جاہل لوگ کرتے ہیں جو دین سے دور اور علم سے بےبہرہ ہوتے ہیں۔ دین کا درست فہم رکھنے والے ہر مسلمان فرد کا فرض ہے کہ وہ ایسے محاورات کو بول چال میں شامل کرنے کی حوصلہ شکنی کرے اور اپنے دوست احباب اور اہلِ خانہ کو ایسے الفاظ کے مفاسد سے آگاہ کرے، جو ان الفاظ کو بغیر کسی تکلّف کے بولنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔

6. مُوسیٰ بھاگا گور سے اور آگے گور کھڑی: (کہاوت)
ذرا سوچیے کہ حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کیا واقعی موت سے اتنے خوف زدہ اور لرزہ براندام تھے کہ اس فنا ہو جانے والی دُنیا میں زندہ رہنے کی خاطر موت سے چھُپتے اور بھاگتے پھرے مگر موت نے پھر بھی اُنھیں آلیا؟ بہرحال ہمیں تو بتانے والوں نے یہی کچھ بتایا ہے، ممکن ہے اس میں یہ ’’اخلاقی سبق‘‘ پنہاں ہو کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور دُنیا کی زندگی ناپائیدار اور مِٹ جانے والی ہے، یہ ذائقہ ہر ذی رُوح نے چکھنا ہی چکھنا ہے، خواہ وہ اللہ کا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا اِنسان دُنیا کی زندگی غنیمت جانتے ہوئے نیک اعمال کو حرزجان بنائے اور بداعمالیوں سے دست کش ہو جائے۔ لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ جو کچھ ہم بڑی روانی اور سادگی سے بول جاتے ہیں، اس سے کہیں کسی مقدس اور متبرک ہستی کی توہین اور ہتک کا پہلو تو برآمد نہیں ہو رہا؟ کم از کم اس محاوراتی فقرے سے تو یہی کچھ ہمارے سامنے آ رہا ہے۔ ہم اس کے سوا کیا کر سکتے ہیں کہ آپ کو اس سے بچنے کی تلقین کریں اور دوسروں کے لیے بھی ایسی جسارتوں سے باز رہنے کی دُعا کریں!

7. لکھے مُوسیٰ پڑھے خُدا (کہاوت)
یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی شخص کی لکھی ہُوئی خراب تحریر (Hand Writing) صاف پڑھی نہ جا رہی ہو۔ اب پتہ نہیں نالائق لوگوں کی خراب لکھائی کا تعلّق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جوڑنے کا مطلب اور مقصد کیا تھا؟ ہر زبان میں رائج ضرب الامثال کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی یا واقعہ پوشیدہ ہوتا ہے، جو بزرگوں اور اہلِ عِلم کی زبانی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ایسے واقعات بیان کرنے میں مولانا اشرف صبوحی مرحوم خاص مہارت رکھتے تھے اور ان کا اُردو زبان و ادب کی تاریخ پر بڑا عبور تھا، لیکن جس کہاوت کا ذکر اُوپر بیان کیا گیا ہے، اس کے پیچھے حقیقت کا کھوج نکالنے میں بڑے سے بڑا عالم بھی ناکام ہو جائےگا۔ کہہ لیجیے کہ یہ نامعقول محاورہ بس یونہی زبان وبیاں میں رائج ہو گیا ہے، اس کا حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی کے ساتھ کچھ تعلّق نہیں، اور یہ بھی کہ ہمیں اللہ اور اس کے نبیوں کے بارے ایسی گستاخیاں زیب نہیں دیتیں۔

نوٹ: اس کہاوت کے بارے یہ وضاحت آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اُوپر لکھے الفاظ علم کا دعویٰ رکھنے والے بڑے بڑے اُردو دان لوگ تیزی اور روانی میں اس طرح بول جاتے ہیں جس سے سُننے والوں کو غلط فہمی ہوتی ہے، جبکہ ایک عالم دین کی وضاحت کے مُطابق کہاوت مذکور کے اصل الفاظ یہ ہیں: ’’ لکھے مُو(بال) سا، پڑھے خود آ۔‘‘یعنی جو شخص بال کی طرح باریک لکھتا ہے کہ دُوسروں کے لیے اسے پڑھنا دُشوار ہو تو اسے خود ہی آکر پڑھے، کوئی اور تو اسے پڑھنے اور سمجھنے سے رہا۔ تعجب ہے کہ اُردو کی بڑی بڑی لُغات اور قواعد کی کُتب میں یہ کہاوت عنوان کے مطابق غلط طور پر لکھی ہوئی پائی گئی ہے، جس سے آپ علم کی نشرواشاعت کے ان نام نہاد مدعیوں اور ذمہ داروں کی علمی سطح کا اندازہ بخوبی کر سکتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment

  • میرے پیارے اسلامی بھائی سید رضوی صاحب، آپ کیلئے ایک معصومانہ تجویز ہے۔ آپ کیلئے بہتر ہو گا کے کسی غیر اسلامی ملک کا رخ کر لیں نہ وہاں مسلمان ہونگے اور نہ ہی آپ کو اسلامی الفاظ کی توہین کا دکھ برداشت کرنا پڑے گا۔
    ہاں! ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کے مسلمان اپنے بچوں کو گیتا اور رامائین کی تعلیم دیں تاکہ وہ اسلامی الفاظ کی توہین کے مرتکب نہ ہوں

  • سید رضوی صاحب, "لکھے مُوسیٰ پڑھے خُدا" کے سلسلے میں آپ کا یہ کہنا کہ"اس کے پیچھے حقیقت کا کھوج نکالنے میں بڑے سے بڑا عالم بھی ناکام ہو جائےگا" کچھ ٹھیک نہیں. مجھ جیسا کم علم بھی یہ جانتا ہے کہ دراصل یہ محاورہ اسطرح نہیں لکھا جاتا بلکہ یہ " (لکھے 'مو' سا پڑھے 'خود آ') " ہے. "مو" یعنی "چھوٹا"، تو پورے محاورے کا مطلب یہ بنا کہ کوئی اتنا برا یا چھوٹا لکھے کہ لکھنے والے کو لکھے گئے الفاظ خود آ آ کر سمجھانے پڑیں. ~ راشد الزماں

  • سید رضوی صاحب, "لکھے مُوسیٰ پڑھے خُدا" کے سلسلے میں آپ کا یہ کہنا کہ"اس کے پیچھے حقیقت کا کھوج نکالنے میں بڑے سے بڑا عالم بھی ناکام ہو جائےگا" کچھ ٹھیک نہیں. مجھ جیسا کم علم بھی یہ جانتا ہے کہ دراصل یہ محاورہ اسطرح نہیں لکھا جاتا بلکہ یہ " (لکھے 'مو' سا پڑھے 'خود آ') " ہے. "مو" یعنی "چھوٹا یا بال"، تو پورے محاورے کا مطلب یہ بنا کہ کوئی اتنا باریک یا چھوٹا لکھے کہ لکھنے والے کو لکھے گئے الفاظ خود آ آ کر سمجھانے پڑیں. ~ راشد الزماں

  • آپ نے تو بھیا وہی بات کہہ دی جس کی وضاحت مضمون کے آخر میں کر دی گئی ہے۔ اگر آپ جیسا [آپ کے اپنے بقول] کم علم اس بات سے آگاہ ہے تو بہت سے "صاحبان علم" شاید نہیں بھی جانتے ہوں گے۔ ذرا توجہ فرمائیں اور اشرف صبوحی والا حوالہ بھی ذہن میں رکھیں، جس کے مطابق ہر کہاوت کا کوئی پس منظر ضرور ہوتا ہے، یعنی یہ کہاوت کسی واقعے، کہانی یا حکایت کی بنا پر وجود میں آتی ہے۔ شاید اتنی وضاحت سے آپ کو سمجھ آ جائے۔