ہوم << حکومت گرانے کا آسان طریقہ-سلیم صافی

حکومت گرانے کا آسان طریقہ-سلیم صافی

saleem safi
وقت ثابت کرے گا کہ وہ لوگ غلطی پر تھے جو آزاد کشمیر انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جیت یا پھر پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابیوں کو اس جماعت کی مقبولیت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ اس کی مقبولیت نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی عدم مقبولیت اور تحریک انصاف کی ناقص سیاست کا ثبوت ہے ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر ریفرنڈم کرایا جائے تو شاید ہی مسلم لیگ(ن) کو دس فی صد عوامی تائید حاصل ہو لیکن اگر انتخابی مقابلہ ہو تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو یہ جماعت ضرور شکست دے گی ۔گویا مسلم لیگ(ن) کی حکومت اپنی خوبیوں کے ساتھ نہیں بلکہ مخالفین کی خامیوں کے سہارے قائم ہے ۔ ورنہ تو یہ حکومت اپنا اخلاقی جواز بھی کھو چکی ہے اور شاید آئینی بھی (دھرنوں کے ڈراموں اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اپوزیشن نے میاں صاحب کے خلاف عدالتی اور قانونی جنگ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی ورنہ تو کب کے ان کے حسب منشا نتائج برآمد ہوچکے ہوتے)۔
مخالفین کہتے ہیں کہ مقبولیت کے زعم میں اللہ نے میاں صاحب کو سیاسی خودکشی کی ایسی بے پناہ صلاحیت دی ہوئی ہے کہ وہ عموماً انہی شاخوں کو کاٹتے ہیں جن پر وہ خود تشریف فرما ہوتے ہیں ۔ پارلیمنٹ جس کے وہ قائد ایوان ہیں کو وہ ذرہ برابر وقعت نہیں دیتے ۔ اب کی بار تو اپنی کابینہ سے بھی الرجک ہیں اور اس کا اجلاس بلانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے ۔ پہلے صرف چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتیوں پر قناعت کرلیتے تھے لیکن اب کی بار تو سرائیکستان اور بہاولپور کے ساتھ بھی سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھا ہے ۔ پارٹی جس کے وہ اپنے آپ کو قائد کہتے ہیں ، کو اقتدار میں آتے ہی معطل کرچکے ہیں لیکن اب پارلیمانی پارٹی کے اراکین کو بھی ان کی زیارت کے لئے ڈھائی سال کا انتظار کرنا پڑا ۔گویا میاں صاحب تسلسل کے ساتھ کوشش کرکے ،اپنی مقبولیت اور حکومت کی قبر کھود رہے ہیں لیکن اسکرپٹ والے گورکن تدفین کا فن جانتے ہیں اور نہ سیاسی مخالفین میں اس کو مارنے اور مقبرے تک لے جانے کی صلاحیت موجودہے ۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے گزشتہ پانچ سال کے دوران بدترین حکمرانی کے ذریعے (جس کا اب بھی سندھ میں تسلسل جاری ہے ) جس طرح خود اپنی جماعت کو قبر میں دفن کیا ہے ، اب خود اس کا اٹھنا مشکل ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کی قیادت کی، اپنی سیاست کی قبر خود کھودنے کی صلاحیت ، میاں صاحب سے بھی زیادہ ہے ۔ اس کے پاس موقع تھا کہ خیبر پختونخوا کو اچھی حکمرانی کے ذریعے مثال بناتی لیکن اس نے سیاست کی طرح حکمرانی کو بھی ڈرامہ بنا دیا۔ میاں صاحب دھرنوں سے قبل حسب عادت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چھیڑخانی کررہے تھے اور اگر بے وقت دھرنوں کی وجہ سے وہ ہر طرح کی جمہوری قوتوں کی ہمدردی کا مستحق نہ بنتے اور یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے گریبان میں جانے والے ان کے ہاتھ الٹے قدموں کی طرف نہ جاتے تو کب کی ان کی حکومت ختم ہوچکی ہوتی ۔
مخالف حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاناما لیکس سے قبل انہوں نے عدلیہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھی سازوسامان تیار کیا تھا اور وہ جنگ بھی ان کو مہنگی پڑتی لیکن مخالفین کے بے وقت شوروغوغا اور دھمکیوں کی وجہ سے وہ پیچھے ہٹ گئے ۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے میں میاں نوازشریف مجرم ہیں اور اگر میرٹ پر فیصلہ ہو تو عدالتوں سے ان کا بچنا مشکل ہے لیکن اس محاذپر توجہ دینے کی بجائے اب تحریک انصاف وغیرہ دوبارہ احتجاج کا راستہ اختیار کرکے عوام کی نفرتوں کو سمیٹنا اور نواز حکومت کو سہارا دینا چاہتی ہیں۔ خان صاحب کا فرمان ہے کہ انہیں کنٹینر پر چڑھنے کا شوق نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں ان کے ذہن پر یہی دو شوق سوار ہیں ۔ وزیراعظم بننے کا شوق اور کیمروں کی موجودگی میں کنٹینر پر چڑھ کر لمبے لمبے خطاب کرنے کا شوق ۔ ورنہ تو نواز حکومت کی رخصتی کے کئی دیگر اور آسان طریقے موجود ہیں اور خود خان صاحب تو دنوں میں اس کو ختم کرسکتے ہیں ۔
آج اگر خان صاحب پرویز خٹک کو کہہ کر صوبائی اسمبلی تڑوا دیں اور پی ٹی آئی کے ممبران ،قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں (حالانکہ وہ پہلے ہی استعفے دے چکے ہیں اور غیرقانونی اور غیراخلاقی طور پربے شرمی کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھ کر ناجائزمراعات لے رہے ہیں ) تو کونسی قوت نواز شریف کی حکومت بچاسکے گی۔ یوں بھی خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت اور پارٹی دھڑے بندیوں کاشکار ہے اور اس طریقے سے ان کی جماعت کا پردہ رہ جائے گا۔ پھر اگر پیپلز پارٹی کے اراکین بھی مستعفی ہوجائیں تو اسمبلی اور نوازحکومت کا برقرار رہنا ناممکن ہوجاتا ہے ۔اسی طرح ایم کیوایم کے اراکین بھی ماضی میں استعفے دے چکے ہیں اور اگر پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی آمادہ ہو تو ایم کیوایم مستعفی ہونے میں دیر نہیں لگائے گی۔ ویسے بھی مسلم لیگ(ن) ہی کے ظفر علی شاہ استعفوں کا معاملہ عدالت میں لے جاچکے ہیں اور انہوں نے یہ موقف اپنایا ہے کہ پی ٹی آئی اور ایم کیوایم کے ممبران مزید اسمبلی کے ممبر نہیںرہے ہیں ۔ اب اگر عدالت میں اس کیس کو سنا جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ بغیر کسی الزام کے ان لوگوں کی قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں سے چھٹی ہوجائےگی ۔
گزشتہ دھرنوں کو بھی عوام کی اکثریت کی تائید اس لئے حاصل نہیں ہوئی کہ پی ٹی آئی کی اخلاقی پوزیشن نہایت کمزور تھی اور موقف میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو والا تھا۔ لوگ یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ان سے قربانی کا مطالبہ کرنے والے عمران خان اپنی صوبائی حکومت کیوں نہیں چھوڑ دیتے ۔ اس مرتبہ تو دھرنوں میں صرف کارکن ہی ہوں گے اور عوام کی دلچسپی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عوام یہ سوال اٹھائیں گے کہ ہم سے اپنے کاروبار چھوڑ کر سڑکوں پر ڈنڈے کھانے جیسی قربانی کا مطالبہ کرنے والے لیڈران خود اسمبلی رکنیت کی قربانی دے کر حکومت گرانے کا آسان راستہ کیوں نہیں اپناتے ۔ ہم جیسے لوگ بھی یہ رائے دیں گے کہ خان صاحب اور بلاول صاحب کو خود اپنی تحریک کی کامیابی اور حکومت کی رخصتی کا یقین نہیں ، اس لئے اسمبلیوں سے نہیں نکلتے ۔ ہاں اگر انہوں نے سڑکوں پر آنے سے پہلے اسمبلیوں سے استعفے دیدئے اور پختونخوا اسمبلی تحلیل کردی تو ہمیں بھی ان کی سنجیدگی کا یقین ہوجائے گا اور حکومت کے پائوں بھی اکھڑ جائیں گے ۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ خان صاحب اور بلاول صاحب حکومت گرانے کا یہ آسان راستہ نہیں اپنائیں گے کیونکہ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وہ نہ تو پاناما لیکس کے حوالے سے بلند ترین اخلاقی مقام پر فائز ہیں اور نہ انہیں کامیابی کا یقین ہے تو پھر احتجاج کے ذریعے اپنا ، قوم کا اور ریاست کا وقت اور پیسہ ضائع کرنے کی بجائے درمیانہ راستہ کیوں نہیں اپنایا جاتا اور وہ ہے عدالتوں کا راستہ ۔
احتجاجی سیاست کے معاملے میں پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف، اے این پی ، جماعت اسلامی اور ایم کیوایم جیسی قوتیں ایک صفحے پر نہیں آسکتیں لیکن اگر پاناما جیسے ایشوز پر عدالتی جنگ ہو تو یہ جماعتیں مشترکہ حکمت عملی بھی طے کرسکتی ہیں اور اگر بھرپور عدالتی جنگ منظم انداز میں لڑی گئی تو نوازشریف اور ان کی حکومت کا بچنا محال ہوجائے گا ۔ لیکن اگر یہ تکلیف نہیں اٹھاسکتے تو پھر سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپوزیشن آرام سے بیٹھ جائے ۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیاد ت تنظیم سازی پر توجہ دے۔ قادری صاحب خواہ مخواہ کے تکلف کی بجائے اب کی بار پاکستان کی پکنک ختم کرکے واپس کینیڈا تشریف لے جاکر ایک آدھ کتاب اور لکھ دیں اور اگلے سال کے لئے خطابات تیار کریں ۔ اگر ان لوگوں نے آرام سے حکومت کرنے دی تو میاں صاحب الحمدللہ خود اپنے لئے کافی ہیں ۔ وہ انشاء اللہ اپنی حکومت چند ماہ میں ہی ختم کرکے رکھ دیں گے ۔ اب تو شاید وہ ہفتوں یا دنوں میں ختم کروا دیں کیونکہ اپوزیشن کے خیا ل میں اب تو وہ اپنے آپ کو پاکستان کا طیب اردوان سمجھتے ہیں ۔

Comments

Click here to post a comment