ہوم << فرقہ واریت اور علما کی علمی و کتابی آرا کی اشاعت - ڈاکٹر محمد شہباز منج

فرقہ واریت اور علما کی علمی و کتابی آرا کی اشاعت - ڈاکٹر محمد شہباز منج

Exif_JPEG_420 ادارۂ امن و تعلیم اسلام آباد اور اقبال بین الاقوامی ادارہ براے تحقیق و مکالمہ کے زیراہتمام اسلام آباد اور نتھیا گلی میں 26تا 30 جولائی 2016ء کے دوران منعقدہ کانفرنس بعنوان ’’بین المسالک ہم آہنگی کا بیانیہ اور لائحۂ عمل‘‘، میں موضوع سے متعلق بہت سے اہم بحثیں ہوئیں۔ راقم نے بھی اپنا تفصیلی مقالہ پیش کیا اور اس پانچ روزہ کانفرنس کے مباحثے اور مکالمے کا حصہ رہا (بعض اہم امور کے بارے میں ان شاء اللہ گاہے گاہے، کچھ مزید طالب علمانہ گزارشات پیش کی جائیں گی) ایک بحث یہ رہی کہ: علما کی علمی و کتابی باتوں یا فتووں کو عوام الناس میں نہیں آنا چاہیے؛ جب علمی باتیں مناظروں اور نیم خواندہ خطیبوں کے ہتھے چڑھتی ہیں، تو فرقہ واریت اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ میرے نزدیک اس طرح کی بات اہل علم کی نجی اور احباب کی محفلوں میں طنز و مزاح کے انداز میں کی گئی باتوں کی حد تک درست مانی جاسکتی ہے، لیکن تصانیف اور فتووں کو اس میں شامل کرنا ایک فضول و لا حاصل امر ہونے کے ساتھ ساتھ، اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے، ان کی ذمہ داری اٹھانے سے بچنے اور خود کو یا دوسروں کو دھوکہ ینے کی کوشش بھی دکھائی دیتی ہے۔
ذرا سوچیے! کیا تصانیف اور فتاویٰ کوئی خفیہ دستاویز ہوتی ہیں، جن کو عوام میں نہیں جانا چاہیے، یا کسی طریقے سے عام لوگوں کو ان تک رسائی سے روکا جا سکتا ہے؟ کیا دین ِ اسلام کا مزاج اس کو قبول کرتا ہے کہ علما کا علمی موقف اور ہو اور عوامی موقف اور، کتابوں میں وہ کچھ لکھیں اور عوام سے کچھ اور کہیں! مثلاً کتابوں میں لکھا ہو کہ ’’شیعہ کافر ہیں، وہ اس اس طرح سے صحابہ کرام کی گستاخی اور تحریف قرآن وغیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘، یا ’’دیوبندی کافر ہیں، وہ گستاخی رسولﷺ و آلِ رسول کے مرتکب ہیں۔‘‘، یا ’’بریلوی بدعتی اور مشرک ہیں۔‘‘ اور ان مواقف کے حق میں میں کتاب وسنت اور علماے سلف کی کتابوں سے دلائل پیش کیے گئے ہوں، اور جب آپ کے یہ مواقف عوام کی سطح پر آ کر تباہی کا باعث بنیں، تو آپ کہیں، ہمارا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ ہمارے لوگ دوسروں کو کافر کافر، یا بدعتی و گستاخ وغیرہ کہتے، اور ان سے لڑائیاں کرتے پھریں۔سوال یہ ہے کہ آپ نے جو موقف اختیار کیا تھا، وہ اسلام کا مطالبہ تھا یا نہیں؟ اگر وہ اسلام کا مطالبہ تھا، تو اس کو چھپانے اور ایک خاص حلقے تک محدود رکھنے کا آپ کے پاس شرعی و اخلاقی جواز کیا ہے؟ اگر وہ اسلام کا مطالبہ نہیں تھا، تو آپ کے پاس اسلام کے نام پر اسے کتاب اور فتوے کی شکل میں سامنے لانے کا کیا شرعی و اخلاقی جواز ہے؟ اگر یہ آپ کا ذاتی موقف تھا، اور شرع کی صحیح پوزیشن آپ پر اس معاملے میں واضح نہیں تھی، تو آپ نے اس پر کتاب کیوں لکھی؟ اگر آپ کا خیال یہ تھا کہ میں نے جو کتاب لکھی ہے، وہ صرف خاص لوگ پڑھ سکتے ہیں، عوام نہیں، تو کیا آپ نے کتاب چھاپتے ہوئے، اس کے سرورق پر اس کی وضاحت کی تھی؟ کیا اسلام کے نام پر چھپی ہوئی اس نوع کی کوئی کتاب ایسی بھی ہو سکتی ہے، جسے پڑھنے کے لیے بندے کو کسی باقاعدہ نصابی تعلیم و تربیت سے گزارنے کی شرط عائد کی جا سکے؟ نیز کیا ایسی کسی شرط کو ملحوظ خاطر رکھنا عملاً ممکن ہے؟ کتاب تو لوگ شائع ہی اس لیے کرتے ہیں کہ بات زیادہ سے زیادہ پھیلے اور وہ لوگ بھی اس سے آگاہ ہوں، جو قبل ازیں آگاہ نہیں تھے، سو کیا ایک موقف کو کتابی شکل میں شائع کر کے چھپایا جا سکتا ہے، بہ طور خاص بات کی نشر و اشاعت کے موجودہ تیز ترین اور وافر ترین ذرائع کے ہوتے ہوئے؟
جناب عالی! آپ سے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ یہ بات دھوکہ کھانے یا دینے کے علاوہ کچھ نہیں کہ آپ کسی فرقے یا گروہ و افراد کے خلاف کتابیں لکھیں اور فتوے جاری فرمائیں اور جب ان کے خوف ناک نتائج سامنے آئیں، تو کھسیانے ہو رہیں کہ ہمارا مقصد یہ نہیں تھا! حق یہ ہے کہ ایسے فتووں اور کتابوں کی بنیاد پر جو قتل و غارت اور فساد ہو، اس سے ایسے مفتی اور مصنفین بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
آپ واقعی مسلکی ہم آہنگی اور اتحاد کے خواہاں ہیں، تو ہمت کریں؛ اعلی ظرفی کا ثبوت دیں، اور وہ یوں کہ اگر آپ کی کوئی کتاب امت اور سوسائٹی میں تباہی و فساد کا سبب بنی ہو، اور آپ کو کسی موقع پر اس کا احساس ہوگیا ہو، تو اس سے برات کا اظہار کریں۔ اگر آپ نے یا آپ کے کسی بزرگ نے ایسا کوئی فتوی دیا یا کتاب لکھی تھی، اور پھر انھیں یا آپ کو احساس ہوگیا کہ ایسا کرنا درست نہیں تھا، تو ان بزرگوں کو یا ان کے بعد آپ کو، ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے، ان کے موقف سے برات کا اظہار فرمانا چاہیے۔اگر آپ ایسا نہیں کرتے توچند صورتیں ہوں گی: یا توآپ بھی اسی موقف کے قائل ہیں، اس صورت میں آپ کا درس اتحاد اور فرقہ واریت کی مخالفت اور مسلمانوں کو اس سے بچانے کی خواہش کا اظہار ، اس مقصد کے لیے منعقدہ ورکشاپس اور کانفرنسز میں شرکت ایک دکھاوا ہے، اور ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کا مصداق۔ یا آپ اس موقف کے قائل نہیں ہیں، اس صورت میں آپ کو اس سے برات کا اظہار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے، اگر آپ قائل تو نہیں، لیکن اس سے برات کا اظہار بھی نہیں کرتے، تو بھی یہ دوغلا پن ہوگا، جو ایک عالم کو زیب نہیں دیتا۔
علم میں ارتقا ہوتا رہتا ہے؛ آدمی اپنی آرا بدلتا رہتا ہے، ضروریاتِ زمانہ کا لحاظ دنیوی ہی نہیں دینی امور میں بھی بہت اہمیت کاحامل ہے، بہت سے فتوے ایک زمانے میں درست مانے گئے، اگلے زمانے میں ان کی تردید ہوگئی؛ ان سے الٹ فتوے سامنے آگئے۔ کیا ضروری ہے کہ وہ فتوے ، جن کا باعثِ فساد و مصیبت ہونا، آپ پر واضح ہوگیا، اسے آپ سینے سے لگائے رہیں۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ اس سے صاحب فتویٰ بزرگ کی مخالفت اور توہین ہوگی، تو یہ آپ کی علمیت نہیں، سطحیت کی علامت ہے. کسی کی رائے سے اختلاف کا یہ مقصد کبھی نہیں ہوتا کہ آپ اس کی توہین کے درپے ہیں، یا اس کو جہنم میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ (اگرچہ ، بد قسمتی سے ہمارے یہاں یہ رویہ عام پایا جاتا ہے؛ بزرگوں کی آرا اور فتووں کی تردید یا ان سے اختلاف کو ان کی توہین اور ان کی بزرگی و ورع کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔)
مسلکی ہم آہنگی اور اتحاد کی بات کرنی ہے، تو کافرسازی پر مبنی فتووں اور کتابوں سے برات ضروری ہے۔ یہ مسئلہ نہیں کہ فلاں فرقے کے فلاں بزرگ نے دوسرے کے خلاف یہ لکھا، اگر وہ بزرگ خود یا اس مسلک کے بعد کے ذمہ دار اور مسلکی ہم آہنگی کے پرچارک اس سے الگ ہو جائیں، تو معاملے کی سنگینی کو کم کیا اور مسلکی ہم آہنگی کی طرف حقیقی قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔
مذکورہ کانفرنس میں جب ایک شیعہ صاحب علم دوست نے مسلکی ہم آہنگی سے متعلق امام خمینی کے افکار پیش کیے، تو میں نے کہا کہ سنیوں کے بعض لوگ اپنی شدت پسندی کا ایک جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ امام خمینی نے صحابہ کرام اور امہات المونین سے متعلق نازیبا الفاظ لکھے ہیں۔ تو ان صاحب علم اور کانفرنس میں موجود دیگر شیعہ علما نے کہا کہ امام خمینی کی ’’کشف الاسرار‘‘ ان کی ابتدائی زندگی کی کتاب ہے، جس سے انھوں نے انقلاب کے بعد برات کا اظہار کیا اور اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا تھا؛ اس کتاب پر ایران میں میں بھی پابندی ہے، یہ کتاب ایران میں آپ کو وہاں بھی نہیں ملے گی، جہاں امام خمینی کی تمام کتابیں اہتمام سے رکھی گئی ہیں۔ جب اس کے بعد کے ایڈیشنوں سے متعلق سوال ہوا، تو شیعہ دوستوں نے کہا کہ یہ کتاب پاکستان میں ’’سپاہ صحابہ‘‘ کی طرف سے چھاپی جاتی ہے، اور پتہ اصل نسخے کا دے دیا جاتا ہے، ورنہ ایران میں یہ کتاب نہیں چھپتی۔
جب مولانا زاہد الراشدی نے مسلکی ہم آہنگی کے حوالے سے لیکچر دیا، تو میں نے ان سے سوال کرتے ہوئے کہا: شیعہ اہلِ علم نے ’’کشف الاسرار‘‘ سے برات کا اظہار کیا اور امام خمینی کے حوالے سے کہا کہ وہ اسے اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے تھے، اس سے واضح ہوا کہ سنجیدہ شیعہ علما کے ہاں اس بات کا احساس و ادراک ہے کہ اصحاب ثلاثہ یا دیگر صحابہ و امہات المومنین سے متعلق نازیبا الفاظ غلط اور قابل مذمت رویہ ہیں، اور اتحاد کی راہ میں رکاوٹ؛ سنجیدہ شیعہ علما کا یہ رویہ نہیں ہونا چاہیے، یا انھیں یہ زیب نہیں دیتا، تو کیا آپ (مولانا زاہد الراشدی) اپنے والد گرامی (دیوبندیوں میں نہایت ہی قابلِ احترام اور معتبر سمجھے جانے والے بزرگ مولانا سرفراز خان صفدر مرحوم) کی ’’ارشادالشیعہ‘‘ (جن میں شیعوں کی تکفیر کی گئی ہے) سے برات کا اظہار کرتے ہیں؟ مولانا نے جواب دیا، ہم تو ’’ارشادالشیعہ‘‘ کے بعد بھی اہلِ تشیع سے دستِ تعاون بڑھاتے آ رہے ہیں، اور مختلف اتحادوں میں ان کے ساتھ شریک رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ’’سیاسی‘‘ نوعیت کا جواب تھا، جس سے یہ مطلب لینا ممکن نہیں تھا کہ مولانا زاہدالراشدی ’’ارشاد الشیعہ‘‘ میں اپنے والد گرامی کے موقف سے متفق نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب لیکچر کے بعد میں مولانا زاہد الراشدی کو الوداع کہنے اور ملنے کےلیے ہال سے باہر آیا اور چلتے چلتے ان سے کہا کہ آپ نے میرے سوال کا جو جواب دیا ہے، وہ اہلِ تشیع سے متعلق آپ کی فراخ دلی کا ثبوت ہے، اور ازراہ تفنن زیر بحث معاملے میں ان کے والد صاحب کے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ’’ارشادالشیعہ‘‘ کے باوجود اہل تشیع سے قربت و تعلق کی بات کر کے گویا فرما دیا کہ:’’مات المفتی مات الفتوی‘‘ تو مولانا راشدی نےفرمایا: نہیں نہیں، میں نے یہ نہیں کہا۔ تو میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا: آپ نے نہیں کہا، لیکن میں نے اخذ کر لیا۔
لطیفہ اور مزاح اپنی جگہ، تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں سے برملا اختلاف کی ہمت نہیں رکھتے، اور یہ ہو نہیں سکتا کہ اس رویے کے اثرات نہ ہوں۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ آپ ایک طرف مسلکی ہم آہنگی کی کانفرنسوں میں ایک گروہ کو اپنے مذہب کا ایک فرقہ کہیں اور اپنے علمی اور کتابی موقف میں اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں۔ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علماے کرام اپنے عوامی طبقے میں اپنی مقبولیت کھونے کے ڈر سے اس موقف کا بھی اظہار نہیں کرتے، جس کے وہ خود قائل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس نوعیت کے سوالات میں واضح طور پر دفاعی نظر آتے اور ’’سیاسی‘‘ بیانات دے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment

  • آپ کا موقف بڑا صائب اور اخلاص پر مبنی ہے.. ہمارے یہاں روایتی حلقوں میں تو شدت پسندی عام ہے ہی بڑے بڑے صاحبان ذوق اور توسع کے دعویدار عملی زندگی میں دوہرا معیار پیش کرتے ہیں. مولانا زاہدالراشدی کو تومیں معذور سمجھتا ہوں کہ جنکے والد ماجد نے نصف صدی خلافیات کے مسائل میں ہی داد تحقیق دی ہو اورجنہیں اپنے مکتبہ فکر میں عصبیت بھی حاصل ہو ایسی شخصیت سے نسبت فرزندی کا حامل بھلا کب حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست بات کی تائید کریگا .تاہم مجھے حیرانی تو عمار ناصر صاحب کے خیالات پڑھ کر ہوئی.. انہوں نے اپنے والد ماجد کے نام ایک خط میں نہ صرف شیعہ اور بریلویوں کے عقائد کو صریح کفریہ کہا بلکہ بریلویوں کے عقائد کو قادیانیوں سے بڑھ کے کفر سمجھا...اور کہا کہ قادیانیوں کے ساتھ مسائل میں تو صرف نظری اختلاف ہے جبکہ بریلوی اپنے عقائد کا اثبات کہیں زیادہ فاسد دلائل سے کرتے ہیں(یہ خط ایک کتاب میں چھپپ چکا ہے ) . میرے لیے سخت استعجاب کا باعث یہ تھا کہ ان کا یہ موقف ٢٠١٠ء کا ہے. جب وہ سالوں سےغامدی صاحب کے ساتھ رہ کر مسلکانہ تنگ نظری کے خلاف جہاد کے دعویدار تھے مزید یہ کہ جدید تعلیم کےحامل عمار ناصر سالوں سے الشریعہ کے پلیٹ فارم سے اتحاد امت کے نقیب بھی ہیں .اس قسم کا موقف ڈاکٹر خالد محمود, سعید چتروڑگڑھی یا انکے دادا جان مولانا سرفراز صفدر رکھیں تو سمجھ آتی ہے لیکن بظاہر توسع اورمسلکانہ رواداری کا علمبردار ایسے دوہرے رویے کا حامل ہو تو حیرت ہوتی ہے مجھے اس سے تو بحث نہیں ہےکہ بہت سارے مسائل میں مولانا سرفراز صفدر کا موقف درست ہے یا انکی حدیث دانی پر ارشاد الحق اثری کی گرفت اور خلافیات میں غلام رسول سعیدی کے ایرادات وغیرہ . یایہ کہ بریلوی اور شیعہ علماء کے کونسے عقائد کفریہ ہیں؟ اور عمار ناصر نے کیا اس سلسلے میں خود بھی خالی الذہن ہو کر ان مکاتب فکر کے موقف کا پڑھا سنا ہے یا نہیں۔.. مجھے تو شہباز منج صاحب کی جرات گفتار نے تحریک دی اور ایک صاحب علم و فضل ( عمار) کی ظاہری رواداری اور باطنی نفرین کا تضاد دکھلانا مقصود تھا.