ہوم << انسانوں کی اجتماعی تنہائی - ناصر فاروق

انسانوں کی اجتماعی تنہائی - ناصر فاروق

ہم سب پاس ہیں، مگر ہم سب تنہا ہیں۔ ہماری تنہائی کی تین بنیادی جہتیں ہیں: شخصی، جسمانی، اور روحانی۔ ہم معاشرتی مخلوق ہیں، الگ الگ نشونما نہیں پاسکتے، مگر ہم سب آج تنہا ہیں۔ دیگر جانداروں کی سماجی ومعاشرتی زندگی بہت بہتر ہے۔ مغرب نے ہمیں ”معاشرتی انسان“ سے ”معاشرتی حیوان“ کی سطح پر ہی گرایا تھا، ہم آج ”معاشرتی مشین“ بن چکے ہیں۔

ہمارے درمیان بے گانگی کی، بے معنویت کی، بے قدری کی غیر مرئی دیواریں کھڑی ہوچکی ہیں۔ سوشل میڈیا، یعنی معاشرتی ذرائع ابلاغ وہ گمراہ کُن عنوان ہے، جو عین اپنے معنوں کا مخالف ہے۔ یہ دراصل معاشرتی ذرائع انتشار ہے۔ ہم سب پاس ہیں مگر ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ تنہا تنہا بے شعور مشینوں کی مصنوعی علامتوں (ایموجیز، رومن اردو، تصویریں وغیرہ) میں اپنے احساسات کی پرورش کررہے ہیں، یہ سعی لاحاصل ہے۔ ہم سب تنہا تنہا بے شمار نظروں (views) کی توجہ چاہتے ہیں، ایسی توجہ جس کی کوئی شناخت کوئی معیار کوئی وابستگی نہیں ہے۔ بس اک بے معنی بے ہنگم گنتی ہے، جس کی دوڑ میں سب تنہا ہیں۔

آن لائن دنیا کا سراب صحرا کی تمازت سے بھی محروم ہے، تھکاوٹ کے احساس اور جدوجہد کی لگن سے عاری ہے، یہ سوائے بے کسی اور تنہائی کچھ نہیں۔ ایک مشینی بے حسی ہے، انسانی وجود پرطاری ہوجاتی ہے، بے کاری غالب آجاتی ہے۔ نہ یہ کائنات مشینی ہے، اور نہ انسان مشینی ہے۔ یہ شخصی، جسمانی، اور روحانی ہیں۔ یہ کائنات با معنی ہے،سو انسانی زندگی بھی با معنی ہے، یہ معنی کیا ہے؟ یہی معنی جو ہے، یہی نظریہ زندگی ہے! سب معنی کی تلاش میں ہیں، معنی معاشرتی زندگی میں ہیں، اور معاشرتی زندگی زمین پر ہے، یہ ”سوشل میڈیا“ پرممکن نہیں، یہ غیر فطری ہے۔

زمین پر معاشرہ بندی کی حقیقت فرد، مرد عورت، اولاد، اوردوست احباب کی شخصی جسمانی اور روحانی وابستگی سے ہی ممکن ہے، اور کوئی دوسری صورت ممکن نہیں۔ مغرب نے مسلسل معاشرتی شیرازہ منتشر کیا ہے، مشرق نے مسلسل معاشری بندی کی ہے۔ مغرب مسلسل مذہب دشمنی پرکاربند رہا ہے، مشرق نے ہمشیہ مذہب کی زندگی گزاری ہے۔ مغرب نے کائنات اور انسان کو مشینی سمجھا اور سمجھایا ہے، اور یوں کائناتی ہم آہنگی سے بغاوت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے مغرب میں معاشرتی زندگی برباد ہوئی، اب پوری زمین شخصی، جسمانی، اور روحانی کرب میں مبتلا ہے۔

مذکورہ مقدمہ ضروری مشینی آلات کی افادیت سے انکارپراستوارنہیں ہے، بلکہ ان کی درست قدر کا تعین ہے۔ سوشل میڈیا پر وہی وقت اور توجہ دینی چاہیے، کہ جتنی ضروری ہو، کہ جتنا وقت اورتوجہ ہم اپنی موٹر سائیکل یا کار کودیتے ہیں، اور استری یا واشنگ مشین پرصرف کرتے ہیں۔ یہ ساری میشنیں ہم نے اپنی خدمت کے لیے بنائی ہیں، ہم ان کے خادم بن کر نہیں رہ سکتے۔ مگر آج کے مغرب میں انسانی وجود ہی محل نظر ہوچکا ہے۔ پہلی بار انسانی فکر میں اس امکان نے جگہ بنائی ہے، کہ کوئی مشین انسان کی جگہ لے سکتی ہے۔

انسانی وجود کی غایت کیا ہے؟ اقبال شناسی کہتی ہے: جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے۔ رب کائنات کی روح اور زمین کی خاک سے مرکب یہ وجود ساری خلقت میں بہترین ساخت پرہے۔ اعلٰی ترین بھی ہوسکتا ہے پست ترین بھی بن سکتا ہے، کسی مخلوق کا انسان سے کوئی مقابلہ نہیں۔سارا عالم معنی ہی معنی ہے، نظم ہی نظم ہے، توازن ہی توازن ہے، ہم آہنگی ہی ہم آہنگی ہے، وحدانیت ہی وحدانیت ہے، الوہیت ہی الوہیت ہے، عبادت ہی عبادت ہے، سوائے ابن آدم کی دنیا کے۔ یہ بے معنی ہے، انتشار ہی انتشار ہے، بگاڑ ہی بگاڑ ہے، شرک ہی شرک ہے، ابلیسیت ہی ابلیسیت ہے، اورکفر ہی کفر ہے۔

اگردنیا خدائی سے ہم آہنگ ہوجائے، با معنی ہوجائے! مگر یہ بہترین معاشرہ بندی کے بغیر ممکن نہیں، اور یہ معاشرہ بندی اس یقین کے بغیر ممکن نہیں کہ انسان کا وجود با معنی ہے، اور یہ معنی صرف ”الٰہی“ ہیں، کہ جس نے انجیل اور زیتون کی قسم! اسے بہترین ساخت پر پیدا کیا۔۔۔! انسانوں کو اجتماعی تنہائی سے نکلنا ہوگا، ”سوشل میڈیا“ کے بحران سے نکلنا ہوگا، مشینوں سے نکلنا ہوگا، اور ایک دوسرے کے ساتھ شخصی، جسمانی، اورروحانی تعلق مضبوط کرنا ہوگا۔

آج انسان کا وجود ہی محل نظر ہے۔ دانشور کہتے ہیں مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفشل انٹیلی جنس یعنی اسمارٹ فون یعنی سوشل میڈیا یعنی وٹس ایپ گوگل فیس بک انسان کی جگہ لے لیں گے، یہ انسان پر قابو پالیں گے، ایسا امکان میں نہیں ہے۔ مگریہ نظریہ انسانی معاشرہ میں انتشار ضرور لارہا ہے، بلکہ معاشرتی جمود کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

اب اصلاح کیسے ہو؟
میں نے سب سے پہلے اس احساس کو شخصی طورپر محسوس کیا،روحانی طورپر جذب کیا، پین اور کاغذ پرباقاعدہ لکھ کر منتقل کیا، اور پھر کمپیوٹر کی باری آئی، ترجیح کاغذ کی ہارڈ کاپی رہی، اور پھریہ تحریرفیس بک کی زینت بنی۔ یعنی ہم سب کو پاس ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ بھی ہونا چاہیے، ایک دوسرے کی شخصی قدر کرنی چاہیے، روحانی تعلق مضبوط کرنا چاہیے، پھر مطالعہ تحقیق اور کتب بینی کی طرف جانا چاہیے، پھرکمپیوٹرز یا اسمارٹ فون پر ضروری ابلاغ کے بعد جسمانی آرام اور ذہنی سکون پرتوجہ دینی چاہیے۔ یہی انسانی تہذیب کی روح ہے، جسے مشینوں کی نذر نہیں کیا جاسکتا!