میرج کونسلنگ اس ایک جملے میں بند ہے۔
ٹینشن میں عورت بولنا شروع ہو جاتی ہے اور مرد خاموش ہو جاتا ہے۔
میں نے عورتوں میں یہ رجحان بہت زیادہ دیکھا ہے کہ وہ اپنی غلطیاں بھی دوسروں پر ڈالنا چاہتی ہیں۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ وہ خود پر اپنی خود کی تنقید بھی برداشت نہیں کر سکتیں۔ جیسے ایک عورت آئینے سے صرف اپنی تعریف سننا چاہتی ہے اور اپنے سراپے کے بارے میں زرا سی کمی کو بھی برداشت نہیں کرتی بلکہ اسکی وجہ کسی اور کو قرار دے دیتی ہے۔ ۔ ۔ ویسے ہی عورت اپنی زندگی کا شخصیت کا محاسبہ کرتے ہوئے بھی شدید الجھن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور اسکی خواہش ہوتی ہے کہ اسکے چہرے کی طرح اسکی شخصیت بھی داغ دھبوں اور کیل دانوں سے پاک صاف نظر آئے۔
ایسے میں عورت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ تمام اچھے کام اپنے کھاتے میں ڈال لے اور برے نتائج کو کسی اور کے ذمے لگا دے۔ شوہر چونکہ قریب ہوتا ہے تو سب سے زیادہ غلطیاں اسی کی نکلتی ہیں۔ ویسے بھی باپ، بھائی وغیرہ ایسی رعایت بھی نہیں دیتے اور انکو اسکی ناراضگی کی پرواہ بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے وہاں یہ الزام نہیں ڈال سکتیں۔
اکثر عورتیں اینگزائٹی کا شکار بھی رہتی ہیں۔ بچوں، مستقبل، اور اپنے اسٹیٹس بارے انکو مسلسل تشویش رہتی ہے۔ لوگ کیا کہیں گے، فلاں ہمارے بارے میں کیا سوچے گا۔ گھر مہمان کیا کہیں گے۔ ساس نندوں سے انکی سرپھٹول پر بھی مسلسل جنگ انکے ذہنوں میں چلتی رہتی ہے۔
اس اینگزائٹی میں وہ مسلسل بولتی رہتی ہیں۔ اور صورتحال کو بول کر سلجھانا چاہتی ہیں۔ اسی لیے اکثر عورتیں آپ کو کہتی ملینگی کہ شوہر انکی بات سن لیا کریں چاہے اسکو حل نہ بھی کریں۔ کیونکہ اکثر عورتوں کو احساس ہو جاتا ہے کہ جن مسائل پر وہ انگزائٹی کا شکار ہو رہی ہیں انکا فوری حل ممکن ہی نہیں۔ اکثر سمجھدار شوہر انکو یہ سہولت مہیا بھی کر دیتے ہیں۔ وہ انکی باتوں پر ہوں ہاں کرتے رہتے ہیں اور زیادہ حصہ نہیں لیتے۔
ماڈرن جوڑوں میں البتہ اب چونکہ عورتیں مرد سے وہ کچھ ڈیمانڈ کر رہی ہیں جو ایک تھراپسٹ یا کوئی دوسری سہیلی عورت ہی انکو مہیا کر سکتی ہے۔ تو اکثر جوڑوں میں اس بات پر جھگڑے ہوتے ہیں اور بیویاں سمجھتی ہیں کہ انکے خاوند اتنے "انڈر اسٹینڈنگ" نہیں ہیں جتنا انکو ہونا چاہیے۔
بہت ہی کم تعداد عورتوں کی ایسی ہوتی ہے جو اپنی خامیاں بھی قبول کرتی ہیں۔ ان سے آگاہ بھی ہوتی ہیں۔ اور کبھی کبھی ان پر بات بھی کر لیتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں یا خواتین اپنے آپ سے مطمئن اور نارمل ہارمونل بیلنس پر ہوتی ہیں۔ زیادہ تر اس کا انحصار انکی خاندانی شخصیت اور تربیت پر ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں شوہروں کے لیے نعمت ہوتی ہیں اور چاہتے لو میرج ہو یا ارینج میرج دونوں صورتوں میں شادی اچھی چل جاتی ہے۔ اور اکثر کوئی مسائل آ بھی جائیں و افہام و تفہیم سے معاملات سلجھ جاتے ہیں۔
ٹینشن میں مرد خاموش ہو جاتے ہیں۔ اور لاپرواہ نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اکثر بیویاں شکایت کرتی ہیں کہ انکا شوہر ان سے بات نہیں کرتا اور گھر آ کر بھی موبائل پر لگا رہتا ہے۔ اور آفس جا کر رو انکو فون تک سننا گوارا نہیں کرتا۔
دراصل ایسی بیویاں شوہر کے ساتھ بانڈنگ کرنے کا سنہری موقع اپنی اس اینگزائٹی کی وجہ سے گنوا چکی ہوتی ہیں جو اوپر بات کی گئی ہے۔ شوہر بیوی کی مسلسل چخ چخ سے تنگ آ چکا ہوتا ہے۔ کام سے واپس آ کر وہ جب دو گھنٹے اپنی ماں بہنوں کے خلاف مسلسل شکایات سنتا ہے تو اس کو یہ وقت بور لگنے لگتا ہے۔ اور وہ کوشش کرتا ہے ایسے مواقع کم سے کم آئیں کہ اسکو بیوی کے ساتھ بیٹھنا پڑے۔
مرد چونکہ اپنے مسائل کو خاموش رہ کر حل کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ بیوی سے اس بارے میں بات نہیں کرتا۔ وہ اسکو یہ نہیں بتاتا کہ تمہاری اس اینگزائٹی کے چکر میں میری واٹ لگی ہوئی ہے۔ میرے لیے عذاب ہے یہ سب سننا اور خاموش رہنا۔ میں تمہارے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارنا زیادہ پسند کرتا ہوں بجائے ہم گھر کے ان مسائل پر بات کریں۔
ادھر اکثر بیویوں کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ چند منٹ بھی اپنے اس مائنڈ سیٹ سے باہر نکل کر شوہر کو کوئی کوالٹی ٹائم دے سکیں۔ اور بالفرض کسی میرے جیسے کونسلر کے کہنے پر چند روز گھنٹہ ڈیڑھ خاموش یا فرینڈلی رہ کر دیکھ بھی لیا تو اس بعد پھٹ پڑتی ہیں کہ شوہر تو ابھی تک تبدیل نہیں ہوا ہمیں خاموش رہتے آج آٹھواں روز ہے۔
مرد جب یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ شادی کر کے پھنس گیا ہے تو وہ بیوی کے ساتھ خاموش ہو جاتا ہے۔
جبکہ بیوی جب خود کو شادی میں مسائل کا شکار پاتی ہے تو وہ ہر "ایچی بیچی" پر تفصیل سے بات کرنا چاہتی ہے۔ چاہے شوہر سے کرے ، اپنی ماں بہن سے یا سہیلی سے۔
تو دوستو، سارے مسائل کی جڑ بیوی کا بولنا اور شوہر کا خاموش ہو جانا۔
تبصرہ لکھیے