ہوم << پارلیمنٹ یہ کیا کرنے جا رہی ہے؟؟-انصار عباسی

پارلیمنٹ یہ کیا کرنے جا رہی ہے؟؟-انصار عباسی

Ansar-Abbasi-1
جو طوفان بدتمیزی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر برپا ہے اس کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ جسے چاہیں بغیر کسی ثبوت کے بدنام کر دیں، پگڑیاں اچھالیں، کسی کا چہرہ کسی دوسرے کے جسم سے جوڑ کر اپنی مرضی کا اسکینڈل بنا دیں، اپنی من پسند کے جھوٹے دستاویزی ’’ثبوت‘‘ بنا کر اپنے مخالف یا جسے بھی آپ نشانہ بنانا چاہیں اُس کی عزت کو تار تار کر دیں، فحش تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کریں، گویا جو دل میں آئے کریں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کھلی چھٹی۔
سب سے سنگین جرم جس کے لیے اسی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو استعمال کیا جاتا ہے اُس کا تعلق لوگوں کے ایمان سے ہے۔ مختلف مذاہب اور اُن سے تعلق رکھنے والی مقدس ہستیوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ان کی بے حرمتی کی جاتی ہے ۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر اسلام مخالف مواد کو پھیلایا جاتا ہے اور انتہائی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ نفرت اور شر پھیلانے والوں کے لیے اپنے مذموم عزائم پورا کرنے کا خوب موقع فراہم کرتے ہیں۔ چند سال پہلے پاکستان میں یوٹیوب کو انہی وجوہات کی بنا پر بند بھی کیا گیا جسے دوبارہ پی ٹی اے کی اس یقین دہانی پر کھول دیا گیا کہ حکومت پاکستان کی شکایت پر یوٹیوب انتظامیہ ایسے مواد کوپاکستان میںبلاک کر دے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے روزانہ موصول ہونے والی شکایتوں کی بنیاد پر بڑی تعداد میں اسلام مخالف انٹرنیٹ سائٹس کو بلاک کر چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے جڑے جرائم کی روک تھام کے لیے اب ہماری پارلیمنٹ ایک سائبر کرائم ایکٹ بنا رہی ہے۔ اس قانون کے ایک مسودہ کو قومی اسمبلی نے پاس کر کے سینیٹ کو بھجوایا جس نے اس بل میں کئی تبدیلیاں کر کے اس بل کو پاس کر کے دوبارہ قومی اسمبلی کو بھجوا دیا جہاں اب سینیٹ کی طرف سے ترمیم شدہ بل کو دوبارہ پاس کیا جائے گا اور اس طرح پاکستان میں پہلا باقاعدہ سائبر کرائم ایکٹ نافذ ہو جائے گا۔
cyber crime bill 2016
اس قانون کے بنانے میں ن لیگ کی حکومت تو کریڈٹ لے ہی رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ سینیٹ کی طرف سے ترمیم شدہ مسودہ قانون کو مجھے دیکھنے کا موقع ملا جس میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کئی جرائم کو شامل کیا گیا اور سزائیں بھی تجویز کی گئیں لیکن میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ دو انتہائی اہم معاملات کو اس مسودہ قانون میں یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ سب سے اہم معاملہ مقدس ہستیوں کی ناموس کے متعلق ہے۔ مسودہ قانون میں کسی عام فرد کی عزت اور اُس کی reputation کے تحفظ کے لیے ایسے اشخاص کے لیے سزائیں تجویز کی گئیں ہیں جو کسی دوسرے فرد کی اجازت کے بغیر اس کی تصویر انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر جاری کرے گا، اُسے بدنام کرے گایا بغیر تحقیق کوئی ایسی پوسٹ دوسروں سے شیئر کرے گا۔ لیکن پورے مسودہ قانون میں مذہبی مقدس ہستیوں کے ناموس کے تحفظ کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میں یہ سب سے سنگین جرم ہے جس کا مقصد لوگوں کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں انتشار اور افراتفری پھیلانا ہوتا ہے۔ اتنا بڑا جرم کیسے ہماری پارلیمنٹ اور وہاں موجود سیاسی پارٹیوں کی نظر سے اوجھل ہو گیا اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ ایک عام فردہو یا کوئی سیاستداں ، حکمران یا کوئی دوسری عوامی شخصیت ان سب کی reputation اور عزت کے تحفظ کے لیے سائبر کرائم کے قانون میں خصوصاً دفعات شامل کی گئیں لیکن مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرانے والوں کا کوئی حوالہ ہی نہیں۔
اس بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گستاخی کرنے والوں کے متعلق پہلے سے قانون موجود ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی عام و خاص کو بدنام کرنے اور اس کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے یا دھوکہ دہی کرنے کے متعلق ہتک عزت سمیت کئی دوسرے قوانین پہلے سے موجود نہیں۔اسی طرح سائبر کرائم قانون کا مسودہ انٹرنیٹ پر فحش مواد (Pornographic material) کو پھیلانے والوں کے لیے بھی کوئی سزا تجویز نہیں کرتا۔ مسودہ قانون بچوں کے متعلق فحش مواد کی روک تھام کی بات تو کرتا ہے اور سزا بھی تجویز کرتا ہے لیکن باقی سب کے لیے کھلی چھٹی ہے۔ فحش مواد کی سائٹس کو انٹرنیٹ پر چلانے والوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانے والوں کو قانوناً پکڑا جانا چاہیے، انہیں سزائیں دی جانی چاہیے لیکن معاشرے کو تباہ کرنے والی یہ بیماری بھی ہماری پارلیمنٹ اور اس میں بیٹھے تقریباً چار سو ممبران میں سے کسی ممبر کو نظر نہیں آئی۔