انگلینڈ کے مشہور بیٹسمین این بیل ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ 2006 کی سیریز میں پاکستان کے کوچ باب وولمر نے ایک نیٹ سیشن میں بیٹنگ کرتا ہوا دیکھ کر کہا کہ "بیٹ کی گرپ کو تھوڑا سا لوز کریں" اس سیریز سے پہلے مجھ سے رنز نہیں بن رہے تھے لیکن اس مشورے پہ عمل کرنے سے مجھے بہت فائدہ ہوا اور پاکستان کے خلاف اسی سیریز میں تین سینچریز بنانے میں کامیاب رہا. موجودہ نئ سلیکشن کمیٹی، نئے کوچ، ان کی نئ ٹیکنیکس اور ہمارے وہی پرانے پلیئرز اور ان سب پہ کروڑوں میں اخراجات، یہ ایسا کمبینیشن ہے جو کوئی بہتری ہی نہیں لا پا رہا کیونکہ کوئی سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں اور کہاں وہ پلیئرز جو صرف ایک مشورہ سن کر اس پہ ایسے عمل کرتے ہیں کہ رنز کے انبار لگا دیتے ہیں. پہلے دو ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی بیٹنگ پرفارمنس سب کے سامنے ہے، جس پہ بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اس لیے کچھ ٹیکنیکل چیزوں کو دیکھتے ہیں جو ان کے مسلسل ڈائون فال کا سبب بن رہی ہیں. سب سے پہلے تو ایک بات سب کو مان لینی چاہیے کہ ہمارے بیٹسمین میں ڈیٹرمینیشن اور ایپلیکیشن کی شدید کمی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اور مسائل بھی ہیں جن پہ نظر ڈالنا ضروری ہے.
........شان مسعود.......
ان کو کھلانے اور ان کے مسلسل فیل ہونے میں سلیکٹرز اور کوچز برابر کے شریک ہیں. سب سے پہلے ان کا آف سٹمپ پہ گارڈ لینا( جہاں بیٹسمین سٹمپس کے سامنا کھڑا ہوتا ہے) ان کو مصیبت میں ڈال رہا ہے کیونکہ اگر آپ پہلے ہی آف سٹمپ پہ ہوں تو آپ کے پاس کسی بھی قسم کی موومنٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی. ایک سٹیپ بھی اور اٹھانے پہ ان کی لیگ سٹمپ اوپن ہوجاتی ہے اور ان کا سر ان کے لیفٹ سائڈ پہ فال کر جاتا ہے جس سے وہ گیند کی لائن کو مس کر جاتے ہیں تو وہ لیگ سٹمپ پہ گری ہوئی گیند پیڈز پہ لگواتے ہیں اور ایل بی ڈبلیو کے امیدوار بنتے ہیں اور آف سٹمپ سے باہر جاتی ہوئی گیند کو سوائے پش کرنے یا سلپس میں کیچنگ پریکٹس کروانے کہ اور کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ وہ بیک فٹ یا فرنٹ فٹ پہ جانے سے خود کو پہلے ہی محروم کر چکے ہوتے ہیں. سوئنگ کو کور کرنے اور کھیلنے کا اگر یہ طریقہ انھیں کسی کوچ نے بتایا ہے تو یہ کوچنگ کے معیار پہ بھی سوالیہ نشان ہے. اگر انھیں مزید پاکستان کے لیے کھیلنا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنا گارڈ اور سٹانس دونوں کو بدلنا ہوگا.
......محمد حفیظ........
ٹیم میں پروفیسر کے نام سے جانے جاتے اس اوپنر کا حال بھی اتنا ہی برا ہے. 2010 سے یہ مسلسل ٹیم میں ہیں اور تب سے ان کی ٹیسٹ میچز میں ایک ہی پرابلم ہے آف سٹمپ سے باہر جاتی یا اندر آتی ہوئی گیند کو کھیلنا. ون ڈے کرکٹ میں چونکہ گیند زیادہ سوئنگ نہیں ہوتی اور پچز بھی فلیٹ ہوتی ہیں اس لیے وہاں تیکنیکی خامیوں کے ساتھ بھی رنز مل جاتے ہیں اس لیے زیادہ مسائل نہیں ہوتے. اگر تو انھیں اگلے میچز میں کھلایا جاتا ہے تو انھیں اپنے آف سٹمپ کا آئیڈیا ہونا بہت ضروری ہے، دوسرا انھیں اپنا گیم پلان بدلنا ہوگا اور ون ڈے موڈ اپنانا ہوگا شاید اس طرح کچھ سکور کرنے میں کامیاب ہوجائیں کیونکہ صرف بلاک کرنے کی نہ ان میں اہلیت نظر آتی ہے نہ ان کی تیکنیک اس قابل ہے.
...........اظہر علی.........
پاکستان کی ون ڈے ٹیم کے کپتان نے پریکٹس میچز میں دو سنچریاں بنائیں اور اپنے فارم میں ہونے کا ثبوت دیا لیکن لارڈز ٹیسٹ کی پہلی اننگز سے ہی مشکل میں نظر آئے. اظہر نے بھی شان مسعود والی ٹیکنک اپنائی اور سوئنگ کو کنٹرول کرنے کے چکر میں آف سٹمپ کا گارڈ لیا. جس سے وہ آف سٹمپ سے باہر یا لیگ سٹپ پہ گری ہوئی ڈلیوریز کھیلتے ہوئے ہر بار اپنا بیلنس کھو دیتے ہیں اور ایک سے زیادہ بار ایل بی ڈبلیو ہو چکے ہیں. اس سٹانس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بیک فٹ یا فرنٹ فٹ پہ دونوں طرح کھیلتے ہوئے گیند کی لائن آسانی سے مس ہو جاتی ہے جس سے بالر کے لیے انھیں آئوٹ کرنا بہت آسان ثابت ہو رہا ہے. سٹرائیک روٹیٹ کرنے میں بھی اظہر علی بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں، ہر گیند کو صرف بلاک کرنے کی نیت سے کھیلنا بھی ان کے سکورنگ چانسز کو بہت محدود کر رہا ہے جس سے بھی بالرز انھیں ٹریپ کر پا رہے ہیں. اپنی فارم حاصل کرنے کے لیے انھیں اپنی پرانی ویڈیوز دیکھنی چاہییں اور اپنی پرانی ٹیکنیک کو اپنانا چاہیے جس سے وہ پہلے رنز کر چکے ہیں.
.........یونس خان.......
اپنے آخری دورہ انگلینڈ کو یادگار بنانے میں یونس خان ابھی تک ناکام ہی نظر آرہے ہیں. 4 اننگز میں ابھی تک وہ کسی ایک اننگز میں بھی مکمل کنٹرول میں نظر نہیں آئے. کریز کے باہر گارڈ لینا، اپنا سٹانس بہت نیچا رکھنا اور ہر بار جمپ کر کے گیند تک پہنچنا ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے. اس دورے میں ابھی تک بیٹنگ کا ردھم اور فلو وہ حاصل نہیں کر پائے جس کی ان سے بہت توقع تھی. نمبر 4 پوزیشن پر کھیلتے ہوئے رنز نہ کرپانا ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے کہ کیونکہ ٹاپ آرڈر کو ساتھ لے کر چلنے میں وہ کافی تجربہ رکھتے ہیں لیکن اس بار ان کی ناکامی سے ٹاپ آرڈر مکمل طور پر ناکام نظر آرہا ہے. انھیں چاہییے کہ کریز کے اندر لیگ سٹمپ پہ گارڈ لیں. اور اپنی ٹرگر موومنٹس کو جتنا کم اور اپنا سر جتنا ساکت رکھ سکتے ہیں رکھ کہ کھیلیں اور سوئنگ اور سیم کو کھیلتے ہوئے اپنا بیلنس برقرار رکھیں اور غیر ضروری جمپ لگانے سے پرہیز کریں. اس سیریز میں وہ جن مختلف طریقوں سے آئوٹ ہوئے ہیں وہ بھی ان جیسے مایہ ناز بلے باز کے لیے لمحہ فکریہ ہے.
........مصباح الحق..........
اپنے ناقدین کو بلے سے جواب دینا مصباح کو بہت اچھی طرح آتا ہے. اپنی ڈیٹرمینیشن اور گیم پلان سے مصباح ابھی تک ٹیم کے سب سے کامیاب بیٹسمین رہے ہیں. کریز پہ ڈٹے رہنا اور سکور کرنے کا کوئی بھی آسان موقع جانے نہ دینا ہی ان کی کامیابی کا راز رہا ہے. اپنی رینج سے دور بالنگ کو انھوں نے ابھی تک اچھی طرح کنٹرول کیا ہے. ابھی تک انھیں ٹیم کے باقی پلیئرز کی جانب سے خاص سپورٹ بھی نہیں مل سکی. انھیں چاہیے کہ اپنے اس سٹائل کو اپنائے رکھیں اور ٹیم کے لیے سکور بناتے رہیں. انھیں بھی سٹرائک روٹیشن پہ دھیان دینے کی ضرورت ہے. کریز پہ نئے آنے والے بیٹسمین کو سیٹ ہونے کا موقع دینے کے لیے بھی انھیں اپنی گیم کو ایڈجسٹ کرتے رہنا چاہیے. بعض دفعہ کسی خاص بالر کے سامنے کسی بیٹسمین کو اننگز کی شروعات میں نہ آنے دینا بالنگ سائیڈ کے لیے فرسٹریشن کا باعث بنتا ہے.
........اسد شفیق.........
برطانوی میڈیا نے مصباح الحق کے بعد اس ٹور پہ سب سے زیادہ جس پلیئر کو اپریشیٹ کیا ہے وہ اسد شفیق ہیں. ان کی تکنیک اور اسٹائل کو کافی سراہا گیا ہے. اس سیریز میں جو سب سے خاص بات نوٹ کی گئی ہے وہ ان کا اسٹانس ہے اور انھوں نے اپنی بیٹنگ تکنیک میں جو تبدیلی کی ہے وہ ان کا بیٹ گرپ کو تھوڑا سا اوپن کرنا ہے. جس سے ان کا بیلنس اور سٹروکس کی رینج میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے ایل بی ڈبلیو یا انسائیڈ ایج سے بولڈ ہونے کی روایت ختم ہوئی ہے. اس لیے بھی وہ اب آف سائیڈ پہ رنز بنا پا رہے ہیں. انھیں رنز بنانے کا یہ سلسلہ برقرار رکھنا ہوگا. بیٹنگ آرڈر میں انھیں ٹاپ آرڈر میں بھی آزمایا جا سکتا ہے.
...........سرفراز احمد.........
یو اے ای اور سری لنکا میں ٹیسٹ کرکٹ میں کافی رنز کرنے والے سرفراز احمد انگلینڈ میں ابھی تک اپنا ٹاپ گیم پیش نہیی کرسکے. کچھ ان کی شاٹ سلیکشن بھی بہت اچھی نہیں رہی. وہ بزی پلیئر ہیں اور ہر بال پہ سٹرائیک روٹیٹ کرنے کا سوچتے ہیں. وکٹ کی جانب آتی ہوئی گیند کھیلنے میں انھوں نے کافی مہارت کا ثبوت دیا ہے اسی لیے اب بالرز انھیں آف سٹمپ کے باہر زیادہ بالنگ کرتے ہیں جس کے مطابق انھیں اچھا گیم پلان بنانا ہوگا اور لوز بال کا انتظار کرنا ہوگا کیونکہ ابھی تک اس تکنیک سے وہ کامیاب نظر نہیں آرہے اور ایک آسان شکار ثابت ہو رہے ہیں.
.......لیٹ آرڈر بیٹنگ....
ٹیسٹ کرکٹ کی ٹاپ ٹیمز میں پاکستان شاید وہ واحد ٹیم ہے جس کا لیٹ آرڈر بیٹنگ کا کنٹری بیوشن نہ ہونے کے برابر ہے. اس لیے بھی ہماری ٹیم اچھی بیٹنگ پرفارمنسز پیش کرنے مین ناکام رہی ہے. مکی آرتھر کو چاہیے کہ وہ اس شعبے میں تھوڑی سی بہتری لانے کی کوشش کریں اور بالنگ پریکٹس کے بعد ان پلیئرز کو بیٹنگ بھی انجوائے کرنا سکھائیں. آسٹریلیا، سائوتھ افریقہ، انگلینڈ، انڈیا اور نیوزی لینڈ نے اپنے ٹیل اینڈرز کی بیٹنگ کی وجہ سے کئ ٹیسٹ میچز بچائے بھی ہیں اور جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں. اس لیے ہماری ٹیم کو بھی اس سلسلے میں کافی محنت کی ضرورت ہے.
تبصرہ لکھیے