ہوم << بھلا یہ کیسی الفت ہے؟-حماد یونس

بھلا یہ کیسی الفت ہے؟-حماد یونس

اگر اردو ، انگریزی ، عربی ، فارسی ، ہندی یا کسی بھی زبان کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ ہر زبان میں لٹریچر یعنی ادب کا سب سے اہم اور مرکزی خیال محبت ہے ۔ یعنی شاعر ہو یا نثر نگار ، جب جب کاغذ اور قلم کو یکجا کرے گا تو غالب امکان یہی ہے کہ محبت یا پیغامِ محبت ہی بکھیرے گا ۔ نفسیات دان سے اس کے تجربات و مشاہدات کا سوال کیا جائے تو خبر ملے گی کہ بیش تر عوام مریضِ محبت بنی بیٹھی ہے۔ ڈرامے ، فلمیں ، گانے ، سب کا محور یہی محبت ہے ۔ اخباروں ، رسالوں ، ویب سائٹس وغیرہ میں اس محبت کا تڑکا نہیں ہوتا بلکہ اس محبت کے بیچ کہیں کہیں کسی کہانی ، قصے یا خبر کا تڑکا ہوتا ہے ۔

حقیقت پرستوں کا الگ رونا ہے کہ یہ دنیا کدھر جا رہی ہے ، مگر ذرا قریب سے دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ کہیں نہاں خانۂ دل میں کوئی محبت یا انس لازماً چھپا بیٹھا ہو گا ، کہ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے۔ ہوَس چُھپ چُھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں. ان سب سے ہٹ کر ذرا حقیقی دنیا کی طرف نظر دوڑانا چاہیں تو سب سے پہلے نی اون سائنز اور رنگین بِل بورڈز ہی نظر کو خیرہ کریں گے ، اور لیجیے یہاں بھی وہی (مبینہ) مَحبت کا جھنجھٹ!!!

اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ آج کا قصہ نہیں ہے ۔ مورخ ، مصور اور شاعر ، تینوں اس امر پر متفق ہیں کہ محبت کا تصور غالباً اس دنیا کے قدیم ترین تصورات و نظریات میں سے ایک ہے ۔ اب خدا جانے اجنتا اور ایلورا کے غاروں میں کیا ہے مگر مصر کے اہرام میں ساڑھے چار ہزار سال قدیم محبت کی داستانیں نقش ہیں ، جب کہ ہومر مُوا تو پیرس و ہیلن کا قصہ اپنی ایلیڈ میں امر کر گیا جبکہ اوڈیسی صاحب تو پولی گیمی کے قائل معلوم ہوتے ہیں ، خدا جانے ان کے یہاں یہ جائز تھا یا نہیں مگر پینی لوپ ، سرس ، کیلپسو ، نازیکا ، کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں ؟ علامہ اقبال تو بانگِ درا میں اسے سب سے پہلا نسخۂ اکسیر قرار دیتے ہیں۔ یعنی جب آدمؑ ابھی صورتِ روح میں تھے ۔
"لِکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اکسیر کا نسخہ
چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشمِ روحِ آدم سے
نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیا گر کی
وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسمِ اعظم سے"
(اقبال کی نظم ، "محبت")

یہ سب تو تمہید ہو گئی کہ محبت کب سے ہے اور کہاں کہاں اس کے مظاہر، بظاہر آج کل نظر آتے ہیں۔ اب ہم لیے چلتے ہیں آپ کو ، وہاں، جہاں یہ محبت نشر ہو رہی ہے ۔ شاعری یا پورے ادب میں دیکھا جائے تو غالب امکان یہی ہے کہ یہ کوئی مسکین عاشق اپنے محبوب کی یاد میں آنسو بہا رہا ہو گا ، کہیں خانہ زادِ زلف کسی زلف کا قصیدہ کہہ رہا ہو گا ، کوئی عاشقِ ناکام اپنی ناکام محبت کی داستان بیان کرے گا یا اپنی کامیاب محبت کی واردات کو منظرِ عام پر لاتا دکھائی دے گا۔ کہیں ذرا زیادہ قدیم زمانے کا لٹریچر کھول بیٹھے تو وہی ادب سامنے آ جائے گا جو آج معاشرے میں نظر آتا ہے ،یونان کے لیسبوس کی صافو یا عربی زبان کے امراؤالقیس صاحب تو وہ کچھ حالات بھی لکھ گئے ہیں جو ایمان دھرم کی گارنٹی کے بعد بھی نوجوانوں نے حکیم صاحب کو لکھ کر نہ دیے ہوں گے۔ یوں ہی تو مسند احمد ، جلد چہارم کی حدیث نمبر 9 میں امراؤ القیس صاحب کو دوزخی شاعروں کا علم بردار نہیں کہا گیا!!!
یہی منظر کم و بیش ہر اخبار ، ٹی وی ، میگزین میں بھی مل جائے گا ۔ یعنی محبت ہی محبت ، تو صاحبو اگر ہر جانب محبت کا ہی بول بالا ہے تو پھر رونا کس بات کا ہے؟ یونیورسٹی کے زمانے میں ہمیں بھی ایسے چند مناظر دیکھنے کا اتفاق ہوا ، اور حیرت تو جب ہوئی جب ہم نے کسی ایک کو بھی "موحد" نہ پایا ۔ یعنی جو محبت کا دعوے دار ہے وہ محبوب کے سامنے ہزاروں مقدسات کی قسمیں کھا رہا ہے ، مگر محبوب کی نظر بچا کر جہاں کوئی "قدرت کا کرشمہ" دکھائی دے ، مجال ہے جو ہمارے سچے عاشق صاحب قول و قرار کرنے ، یا ٹھنڈی آہیں بھرنے اور بقول عطاء الحق قاسمی ، "ان شاء اللہ" کہنے کا موقع ہاتھ سے جانے دیں!!!

اچھا یہاں اگر کبھی ان متفرق کشتیوں کے مسافرانِ رہِ وفا سے سوال پوچھا جائے کہ بھائی یہ تیری تلوار دو دھاری کیوں ہے تو سب سے صائب جواب یہ ہوتا ہے کہ دھوکے یا نقصان کے خوف سے بیک اپ پلان رکھا ہوا ہے۔ ہم نے تو اس محبت کو کاروبار کے سوا کچھ نہ جانا۔

خیر، جو ہوتا ہے ، ہونے دیجیے ، ہمارے باپ کا کیا جاتا ہے؟؟؟ مگر ایک الجھن ہے جو ذہن کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے کہ اس محبت میں ایسا کیا ہے جس کی بنیاد پر اقبال صاحب اسے عرش کے پائے پر لکھا اکسیر کا نسخہ سمجھتے ہیں اور اقبال کے مبینہ کیمیا دان صاحب اسے اسم اعظم سے بڑھ کر سمجھتے ہیں؟ اس محبت کی جو تصویر ہم نے اپنے معاشرے میں دیکھی ، وہ تو کسی رخ سے ایسی نہیں معلوم ہوتی کہ اسے شرفاء کے کرنے کا کام سمجھا جائے ۔ جبھی ہم نے بہت پہلے اپنی ایک غزل میں لکھا تھا :؎
چلو اب اور کوئی کام کر لیں
محَبّت عام ہوتی جا رہی ہے

مگر ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ محبت وہ نہیں جو ہمیں دکھائی جا رہی ہے ۔ یعنی اے محبت کرنے والو؟ جس کو تم پاکیزہ نہ رکھ سکو وہ محبت کیوں کر ہو سکتی ہے؟ جو تمہاری نظر کو باندھ نہ دے وہ کیسی گرفتاری ہے ؟ وہ کیسی بادشاہی ہے جو اپنی سرحدوں پر پہرہ نہ دے ؟ ہم نے تو سنا تھا کہ سچی محبت انسان کو غصِ بصر سے نوازتی ہے!!! یعنی نظروں کو جھکنے کا سلیقہ سکھاتی ہے ۔ ایک رخ ہونے اور ایک ہی کا ہو رہنے کا گر سکھاتی ہے ۔ ہر منظر کو نظر انداز کرنے میں مشّاق کرتی ہے۔ یہ کیا محبت ہوئی کہ ہر منظر پر ہی جان نکلتی ہو!!! وہ کون سی محبت ہے جسے سود و زیاں کی فکر لاحق ہو !!!

یہ جسے ہمارے یہاں محبت کا نام دیا گیا ہے ، اسے اہلِ سلیقہ و ادب نے بہت پہلے سے ہوس کا نام دے رکھا ہے ۔ سو جان لیجیے ، آپ اپنےجذبات کو محبت کہیے یا عشق کا نام دیجیے ، مگر آپ کو اگر غصِ بصر کی نعمت نہیں ملی (یعنی نظروں کا جھکا ہونا)، اگر آپ کے جذبات و احساسات اور اطوار میں پاکیزگی نہیں تو آپ محبت نہیں ہوس کے مریض ہیں ، اور لغت آپ کو بوالہوس کے نام سے جانتی ہے۔ اسی بوالہوس کے بارےمیں حالی نے کہا تھا۔؎
بوالہوس عشق کی لذت سے خبر دار نہیں
ہیں مئے ناب کے دلّال ، قدَح خوار نہیں
ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ محبت واقعتاً ایک عالم گیر جذبہ ہے ، بظاہر بادشاہت گو اس کے پاس نہیں ، مگر یہ کسی کو یونہی نہیں دی جا سکتی ۔ یعنی آپ کسی احسان کے بوجھ تلے دبے یا کسی پر ترس کھا کر کسی کو خیرات دے سکتے ہیں، توجہ دے سکتے ہیں ، وقت دے سکتے ہیں ، شاید سب کچھ دے سکتے ہیں مگر محبت کسی پر ترس کھا کر نہیں کی جا سکتی ۔ محبت کو فاتحِ عالم سمجھا گیا ہے اور جو فاتحِ عالم ہو وہ کسی کو خیرات میں نہیں دیا جا سکتا۔