ہوم << فلسفہ مودودیؒ اور اس پر تحقیق-سید مجتبیٰ

فلسفہ مودودیؒ اور اس پر تحقیق-سید مجتبیٰ

2015 کے موسم گرما میں اچانک پی ایچ ڈی کرنے کا خناس ذہن میں سمایا۔ 2 ماہ کی تگ و دو کے بعد ایک ریسرچ پروپوزل تیار کیا جسکا موضوع تھا ،

Hudud and Mitigation; A comparative study of Shariah law in Malaysia & Saudi Arabia

ڈھائی ہزار الفاظ پر مشتمل یہ پروپوزل برمنگھم یونیورسٹی اور نیومین یونیورسٹی کے تھیولوجی ڈیپارٹمنٹ کو میل کردیا. جسکے بعد کئی ماہ خاموشی رہی لیکن دسمبر کے پہلے ہفتے میں برمنگھم یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر کیتھرین براون کی میل موصول ہوئی جس میں ملاقات کا وقت دیا گیا تھا .سو میں وقت مقررہ پر پہنچ گیا۔
ان خاتون نے اپنے فیڈبیک میں کہا کے موضوع اہم ہے لیکن اس میں تھیولوجیکل سے زیادہ لیگل نکات اٹھائے گئے ہیں لہذا اول تو اسکے لئے لا ڈیپارٹمنٹ کا سپروائز درکار ہوگا اور دوم فنڈنگ کا حصول محال ہوگا۔
پھر اپنی کہنیاں میز پر ٹکا کر تھوڑا سا آگے کی طرف جھکیں اور بولیں۔ پولیٹیکل اسلام میں اگر دلچسپی ہے تو میں سپروائز بھی کروں گی اور فنڈنگ کا انتظام بھی کردوں گی۔ یہ کہہ کر انہوں نے دو خالی کپ نکالے اور چائے کی کیٹل آن کردی اگلے 10 منٹ ہم اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔ پھر میں نے پوچھا ،
مغرب کی اس موضوع میں اتنی دلچسپی یا بالفاظ دیگر اتنا خوفزدہ کیوں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلام سے نہیں پولیٹیکل اسلام سے خطرہ ہے جسکی بنیاد پر ریاست مدینہ کا قیام عمل میں آیا۔ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور انکے بعد آنے والے ریاست کے قیام کے بعد خاموش نہیں بیٹھے۔ پولیٹیکل اسلام ایک ورلڈ آرڈر ہے جسے اگر روکا نہ گیا تو پہلے سے قائم ورلڈ آرڈر کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ماضی میں انکے حریف قیصر و کسری تھے جبکہ آج مغربی دنیا ہے۔
کیٹل میں پانی ابلنے لگا لیکن انہوں نے کیٹل آف کردی اور کپ واپس دراز میں رکھتے ہوئے بولیں۔ چائے کہیں اور پیتے ہیں۔
وہ مجھے برابر والے کمرے میں لے گئیں جہاں ایک بوڑھا پروفیسر اور درمیانی عمر کا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ پروفیسر کا نام یاد نہیں رہا لیکن دوسرے شخص کا تعارف یہ کہہ کر کروایا گیا کہ یہ رائے جیکسن ہیں اور گلوسٹر یونیورسٹی میں تھیولوجی کے استاد ہیں .
پولیٹیکل اسلام پر گفتگو پھر شروع ہوگئی۔ اس بار گفتگو کا محور 4 افراد تھے۔ محمد عبدہ، حسن البنا، سید قطب اور مولانا مودودی۔ کیتھرین اور بوڑھے پروفیسر کی معلومات وسیع تھیں۔ میں بھی محدود علم کے ساتھ شریک گفتگو رہا تاہم رائے جیکسن اس ساری مدت میں خاموش رہا۔ کیتھرین کا خیال تھا کہ مصر پولیٹیکل اسلام کی نرسری ہے تاہم کافی دیر بعد جب رائے جیکسن سے اسکی رائے مانگی گئی تو اس نے ایک گہری سانس لی اور بولا کے
یہ درست ہے کہ پولیٹیکل اسلام کی زیادہ تر تحریکیں براعظم افریقہ سے نمودار ہوئیں لیکن اسکی باقاعدہ نظریاتی بنیاد برصغیر میں رکھی گئی۔ بقول رائے جیکسن، محمد عبدہ کے سوا یہ تمام مفکرین اگرچہ ہم عصر ہیں لیکن
"مودودی ان میں سب سے زیادہ خطرناک ہے".
رائے جیکسن کے مطابق عہد حاضر کی جتنی بھی اسلامی تحاریک ہیں ان سب کی نظریاتی آبیاری فلسفہ مودودی سے کی گئی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ فلسفہِ مودودی قومیت، زبان اور فرقہ وارانہ سرحدوں سے ماوراء ہے. یہی وجہ ہےکہ میں خمینی کے انقلاب کی بنیاد بھی فلسفہ مودودی کو قرار دیتا ہوں۔ پولیٹیکل اسلام کو سمجھنا ہے تو مودودی کو سمجھو۔ مودودی سمجھ آگیا تو پولیٹیکل اسلام بھی سمجھ آجائے گا۔
معلوم ہوا کہ رائے جیکسن5کتابوں کے مصنف ہیں جنکی تفصیل یہ ہے۔

1) What Is Islamic Philosophy? (Routledge, 2014)
2) Fifty Key Figures in Islam (Routledge 2006)
3) Nietzsche and Islam (Routledge 2007)
4) Mawdudi and Political Islam (Routledge 2010)
5) The God of Philosophy: 2nd Edition (Acumen, 2011).

اس دوران ایک ایشین خاتون جو کسی کام سے کمرے میں داخل ہوئیں، ہماری گفتگو سننے لگ گئیں۔

اختتامی کلمات کے بعد وہ میرے ساتھ ہی کمرے سے نکل آئیں۔ لفٹ سے نیچے آتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ ریسرچ فیلو ہیں اور حال ہی میں "اسلام میں فیمینزم بمقابلہ رجعت پسندی" کے موضوع پر پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے، مودودی اور پولیٹیکل اسلام اس وقت تھیولوجی کا ہاٹ ٹاپک ہے؟ تو وہ ہنس پڑیں اور بولیں۔ میری پوری تھیسس ہی مودودی کے افکار پر ہے۔ اور میری ہی نہیں یورپ کی تمام جامعات میں اسلام پر سب سے زیادہ تحقیق پولیٹیکل اسلام اور مودودی پر ہورہی ہے۔ خدا حافظ کہتے ہوئے انہوں نے ریسیپشن کے ساتھ لگے نوٹس بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہاں تھیولوجی کے ممکنہ تحقیقی موضوعات فہرست لگی ہے۔ ایک نظر اس پر ڈال لو۔
بورڈ پر لگ بھگ 50 یا 60 موضوعات درج تھے جن میں 9 پولیٹیکل اسلام سے متعلق تھے اور ہر موضوع کی تحقیق کیلئے ایک ہی حوالہ تھا۔
مودودی۔
میری خواہش تھی کے میں اس موقع کا فائدہ اٹھاتا لیکن کچھ ہی عرصے بعد میری بیٹی کو کینسر تشخیص ہوا جسکے بعد ان تمام سرگرمیوں کو منسوخ کرنا پڑا۔