انسان کا قتل کسی بھی معاشرے میں قابلِ قبول عمل نہیں ہے، اس کے باوجود ہر معاشرے میں اس کا وجود ثابت ہے۔ دنیا کے تمام قوانین قتل کو سب سے بڑا جرم مانتے ہیں اور اس کی سزا بھی سب سے سخت تجویز کرتے ہیں۔ ہابیل اور قابیل سے چلنے والا یہ سلسلہ نہ صرف ہنوز جاری ہے بلکہ آئندہ بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ قتل کی دیگر بہت سی وجوہات میں سے غیرت ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی مسئلے کے تدارک کے لیے اس کی وجہ تلاش کرکے اس کو ختم کرنا چاہیے۔ اسی طرح غیرت کے نام پر قتل کی وجہ جانے بغیر اس پر بات کرنا ہوا کو وٹے مارنے کے مترادف ہوگا۔
قتل کی یہ قسم آبادی کے تناسب سے کچھ زیادہ ہی بڑھ رہی ہے لہذا اس کے بڑھنے کی دیگر نسبتوں کو بھی دیکھنا ہوگا ۔
ا۔ رابطے کی آسانی :
ماضی قریب تک رابطے کے وافر ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے اتنے قریب نہ تھے۔ جتنی باتیں ایک صفحے کے خط میں لکھی جا سکتی تھی، اب اس سے کہیں زیادہ ایک برقی مراسلے میں کی جا سکتی ہیں۔ خط کے ساتھ جڑی مشکلات کو بھی جدید ذرائع نے ختم کر دیا۔ خط پہنچانا اور اس کا پکڑا جانا ایک بڑا مسئلہ ہوتا تھا اور پھر اسے چھپا چھپا کر رکھنا اور پڑھنا، سوشل میڈیا اور چیٹنگ کی سہولت نے وہ خوف ختم کر دیا ہے. پرانا ٹیلیفون جس کے بل پر رابطے کے سارے نمبر چھپ کر آ جاتے تھے جو یقیناََ مخرب اخلاق رابطوں کی نگرانی میں معاون ہوتے تھے، وہ بھی موبائل فون کی بدولت معدوم ہو گئے۔ ان تمام تر آسانیوں نے جہاں جائز رابطوں میں انقلاب برپا کیا وہیں ناجائز رابطوں اور تعلقات کی راہ بھی آسان تر کردی۔ یہ معاشرتی بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ب۔ میڈیا :
ریڈیو، اخبار اور ٹیلیویژن خبر کے بہترین ذرائع ہوا کرتے تھے۔ ہلکی پھلکی تفریح جس سے گھر کے سب افراد ایک ساتھ بیٹھ کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے، ریڈیو اور ٹیلیویژن کی خوبصورتی ہوا کرتی تھی۔ پھر سیٹیلائٹ چینلز کی بھرمار اور بےہودگی کا سیلاب آ گیا۔ عشق، محبت، افیئرز اور بے حیائی کو جس طرح سکرین پر دکھایا گیا گیا، اس نے سب سے پہلے تو ایک مرکزی ٹی وی سکرین کو تقسیم کرکے اس کا ایک ایک ٹکڑا ہر کمرے میں پہنچا دیا اور دوسرا تنہائی کے ساتھ مل کر نوجوانوں کے کچے ذہنوں میں جو شیطانی فصل بوئی، اس کے لہلہاتے کھیت آج ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس پر انٹرنیٹ اور سمارٹ فون نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
ج۔ قانون :
عالمی قوانین میں جس پیمانے پر بے حیائی کی پذیرائی کی گئی اس کی مثال ماضی میں ملنا ناممکن ہے۔ ناجائز اختلاط کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی جیسے مکروہات کو بھی قانونی چھتری فراہم کر دی گئی۔ ایسے گند کے کئی چھینٹے ہمارے ہاں بھی پڑے اور مساوات، انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے نام پر بےحیائی کی کئی شکلوں کو قانونی حیثیت مل گئی۔ معاشرتی ابتری میں ان آسانیوں نے ایک اہم اور خطرناک کردار ادا کیا۔
د۔ تربیت کی کمی:
والدین کے لیے بچوں کی تربیت پہلے ہی ایک مشکل کام ہوا کرتا تھا جسے موجودہ افرا تفری اور شیطانی ہتھکنڈوں کی بھرمار نے تقریباََ ناممکن کر دیا ہے۔ اب معاشرے میں اپنا مقام قائم رکھنے کے لیے والدین کو زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنا پڑتا ہے اور اسی طرح تعلیم کے نام پر بھی بچوں کو زیادہ تر گھر سے دور رہنا پڑتا ہے جس کے اچھے ثمرات کے ساتھ ساتھ مضر اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
ح۔ مذہب سے دوری:
جس طرح آج کے معاشرے میں مذہب کو حرف غلط باور کرایا جا رہا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ مذہب اور اس کے شعائر کو مذاق بنا کر نوجوان نسل کو مذہب سے دور کیا جا رہا ہے۔ جس کے دیگر بد اثرات کے ساتھ ساتھ احساسِ ذمہ داری، پاکیزگی، شرافت اور حیا بھی سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں۔
و۔ شادی میں مشکلات:
اگرچہ مقامی رسم و رواج پہلے بھی شادی میں تاخیر کا سبب بنا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سختی میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی نے جہیز، گھر، گاڑی اور سٹیٹس کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کو شادی جیسے مبارک رشتے سے کافی دور جا کھڑا کیا ہے۔ اور اسی بعد کا فائدہ اٹھا کر شیطان نے اوپر بیان کیے گئے تمام ذرائع بروئے کار لاکر زنا کا راستہ آسان بنا دیا ہے۔
ز۔ معاشرتی منافقت:
ان تمام حالات نے جہاں ہماری بہت سی دیگر اخلاقی اقدار کا قتل کیا وہیں ہمیں مجموعی طور پر منافق بنا دیا۔ ہم نے مغرب کی ان "سہولیات" کا خیرمقدم تو کھلی بانہوں سے کیا لیکن اس کے ذیلی اثرات کو کھلے دل سے قبول کرنے کے بجائے اپنی نام نہاد "غیرت" کا ہوا کھڑے کیے رکھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی جمے ہوئے مکھن کا برتن آگ پر رکھ کر یہ امید رکھے کہ مکھن پگھلے گا نہیں۔ اس سوچ کو بدترین منافقت کہا جا سکتا ہے۔ آج جس طرح مغربی معاشرہ بےراہ روی کا شکار ہے وہ تمام حالات اگر ہم نے قبول کر لیے ہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ ہم اپنی "غیرت " کو بھی اسی مغربی نہج پر لے آئیں جہاں والدین کی ذمہ داری صرف اولاد کو پال پوس کر تعلیم دلوانا اور ان کے بالغ ہوتے ہی ان کی مادر پدر آزادی قبول کرنا ہے، اب وہ جو مرضی گل کھلاتے پھریں، والدین انھیں روکنے ٹوکنے کے روادار نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے بےراہ روی کی فصل بو کر، اسے بے حیائی سے سینچا لیکن کاٹتے ہوئے یہ امید رکھی کہ مشرقی اقدار اور اخلاق کا زریں پھل گھر آئے گا۔
اس نقطے پر جاگی ہوئی بےکار غیرت ہمیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے، اور قتل جیسے قبیح گناہ کا ارتکاب کرواتی ہے۔ لہذا بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایسی صورتحال میں غیرت کے نام پر قتل بھی ایک شیطانی فعل ہے جس سے سوائے شیطان کی خوشنودی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جو اس کی مذمت کرتے ہیں اگر وہ اپنے اس اقدام میں مخلص ہیں تو انھیں چاہیے کہ ان تمام پہلوؤں کی اصلاح پر بھی میدان میں آئیں۔ ورنہ یہ بھی ایک عظیم منافقت ہی ہو گی کہ جڑوں کی بجائے پھل کو کوسا جائے۔
تبصرہ لکھیے