لسانی عصبیت پر مبنی قوم پرست تنظیموں کے سد باب اور بیخ کنی کا مطالبہ جب جمعیت کرتی رہی تو لبرل طبقہ تیر دشنام برساتا رہا۔ حال ہی میں راجہ قیصر احمد صاحب (سابق رجسٹرار جامعہ قائد اعظم) نے خود اس کا نوحہ سناتے ہوئے اعترافی بیان دیا۔ راجہ صاحب نے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا آنکھوں دیکھا حال نشر کیا ہے جو نہ صرف دیدنی ہے بلکہ قابل افسوس و عبرت بھی ہے۔
قوم پرست تنظیموں نے جامعہ کو کس نہج پر پہنچایا؟ کس کردار کا مظاہرہ کرتی رہیں؟ کن اوصاف کی حامل رہیں؟ سب کا احاطہ راجہ صاحب نے چشم دید گواہ بن کر کیا ہے۔ تشدد، غیر پیشہ واریت، لا قانونیت، بداخلاق حاکمیت یہ وہ کردارِ بد کردار ہیں جو ان کونسلز کا روز اول سے وطیرہ رہے ہیں۔
راجہ صاحب یوں رقم طراز ہیں، "پچھلے دو سالوں کی توضیح کے بعد میں ببانگ دہل کہہ سکتا ہوں کہ قوم پرست کونسلز نے ناقابل تلافی مسائل کو جنم دیا ہے۔ یہ کونسلز متشدد ہیں اور حقیر اخلاقیات، معمولی عقل، پیشہ ورانہ مہارت اور سطحی انتشاری جبلت کے ساتھ جھوٹے تکبر کی وارث ہیں"۔ یہ تاریخ ساز اعتراف شکست خوردہ کونسلز کی تابوت پر آخری کیل ہے۔
اب "روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں" کے مصداق ایک طالب علم پاکستان کے ہر بڑے جامعہ کا رونا کیونکر روتا رہے۔ یہ حال فقط جامعہ قائد تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی ہر بڑی یونیورسٹی کا تعلیمی ماحول ان کونسلز سے زہر آلود ہے۔ ان کی بدولت طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ شعوری اور نظریاتی طلبہ تحریکوں نے جب آمریت کے خلاف بڑے پیمانے پر طلبہ کے اندر شعور بیدار کیا تو آمروں نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کرتے ہوئے لسانی گروہوں کو پروان چڑھایا جو کسی نظریے اور مقصد کے دعویدار نہیں تھے۔ بناؤ کا کوئی ایک کام ان سے سرزد نہ ہوسکا۔ البتہ بگاڑ کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
جامعات میں ایسے گروہوں کی بنیاد موجودہ کوٹہ سسٹم کا نظام ہے، جو میرٹ کے استحصال اور خلاف ورزی کی زندہ مثال ہے۔ یہ کوٹہ سسٹم چھان بین اور احتساب سے ماورا ہے۔ طلبہ کو جوق در جوق کوٹہ پر داخلہ دیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں کوئی قطعی اصول ہے نہ نظر ثانی کی کوئی گنجائش۔ بس شتر بے مہار کی طرح ہر شعبہ ایسے عناصر سے بھر دیا جاتا ہے جو وبالِ جان بن کر ابھرتے ہیں۔
اس پر مستزاد کہ یہ لوگ جب کوٹہ نظام کے توسط سے جامعات پر قابض ہوتے ہیں تو یہ کسی کریئر کے حامل نہیں ہوتے اور ڈگری کے اختتام پر بھی سالوں جامعات پر اپنا تسلط جمائے رکھتے ہیں۔ انتظامیہ کی ناکامی کا یہ گوشہ بھی دیکھیے کہ ان کی زور زبردستی اور لاٹھی کلچر کے سامنے اطفال بن جاتے ہیں۔
راجہ صاحب کی گواہی اور توثیق کے بعد ہم یہ مطالبہ ایک بار پھر دہراتے ہیں کہ کوٹہ سسٹم میں اصلاحات کی جائیں اور احتساب کے عمل کو پروان چڑھایا جائے۔ تاکہ تباہی کی طرف بڑھتی جامعات کا حال سدھارا جا سکے۔ بصورت دیگر
"اب کے ہم بگڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں سدھریں"
تبصرہ لکھیے