ہوم << شاہد آفریدی اور پی سی بی کو سالِ نو پر درپیش اہم چیلنجز -حمّاد یُونُس

شاہد آفریدی اور پی سی بی کو سالِ نو پر درپیش اہم چیلنجز -حمّاد یُونُس

پاکستان کرکٹ بورڈ مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار ہے ، جہاں آئے روز تبدیلیاں اور تبادلے ہی چلتے رہتے ہیں ۔ چند روز قبل گورننگ باڈی اور ادارے میں متفرق تبدیلیاں اور تقرریاں ہوئیں، جن میں نجم سیٹھی کو چیئرمین کرکٹ بورڈ اور شاہد آفریدی کو چیف سلیکٹر مقرر کیا گیا ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ لوگوں کو مقرر کیا گیا ۔
مگر سب سے اہم پوزیشنز چیئرمین اور چیف سلیکٹر کی ہی تھیں۔ اب جبکہ انہوں نے اپنے عہدوں کے چارج سنبھال لیا ہے تو ان سے توقعات بھی بہت ہیں، کیونکہ بڑے اختیار کے ساتھ بڑی ذمہ داری بھی آتی ہے۔

چیئرمین اور چیف سلیکٹر دو مختلف عہدے ہیں مگر ان کی ذمہ داریاں اور دائرہِ کار co-relate کرتے ہیں لہٰذا ہم ان کے چیلنجز کو بلا تخصص ، without being specific بیان کریں گے۔

1 : گراس روٹ لیول پر کام کرنا
ہر نیا چیئرمین اور ذمہ دار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ گراس روٹ لیول پر کام شروع کرے گا۔ یعنی گلی محلوں اور ابتدائی کلبز کے کرکٹرز کی ٹریننگ ، ان کی باقاعدہ گرومنگ کرنا ، ان کی صلاحیتوں کو نکھارنا اور ابتدا میں ہی ان کی تکنیکی لحاظ سے رہنمائی کرنا۔

2: فرسٹ کلاس اور لسٹ اے کرکٹ میں تبدیلی لانا
پاکستان میں کرکٹ کا نظام 1948 سے قائم ہے مگر اس میں تبدیلی 74 برس ہونے کے باوجود نہیں آئی۔ قومی ڈومیسٹک کرکٹ میں چار روزہ فرسٹ کلاس میچز اکثر ڈرا پر ختم ہوتے ہیں اور لسٹ اے میچز کا احوال بھی دفاعی حکمت عملی سے عبارت ہے۔ مناسب تربیت اور ہر قسم کے حالات سے نبٹنے کے لیے تیار کرنے کا بھی کوئی رواج نہیں۔
اس سے ہمارے نوجوان کرکٹرز کی عالمی سطح کی کرکٹ سے ہم آہنگی نہیں ہو پاتی اور وہ ایک خول میں بند رہتے ہیں۔
اسی لیے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی تیز، باؤنسی پچز پر ہمارے بلے باز اکثر ناکام رہتے ہیں ۔

3:ماڈرن کرکٹ کا شعور اجاگر کرنا
عالمی کرکٹ میں 2003 کے ورلڈ کپ سے ایک انقلاب برپا ہے۔ دفاعی کرکٹ کی جگہ جارح مزاجی نے لے لی اور بلے بازوں اور بولرز، دونوں نے ہی شکست سے بچنے کی بجائے جیت کے لیے جان لڑانے کا رویہ اپنا لیا ۔ نا صرف بلے بازوں نے تیز رفتاری سے کھیلنا شروع شروع کیا بلکہ بولرز نے بھی رنز روکنے کی جگہ وکٹس کے حصول پر زور دیا ۔
مگر پاکستان میں یہی فارمولا ابھی تک جاری ہے کہ
Defense is the best Offense
یا ، جاوید میانداد کا 40 برس پرانا قول، کہ سر جھکا کر کھیلنے والے ہی سر اٹھا کر جی سکتے ہیں۔
مگر دنیا اس سب سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم ون ڈے میں تقریباً پانچ سو کے ہندسے کو چھو چکی ہے، 498 رنز اسکور کر کے ، جبکہ پاکستان نے آج تک ون ڈے میں 400 رنز بھی نہیں اسکور کیے۔

4:جیت کی لگن کو اجاگر کرنا
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کوچز اور ذمہ داران جو دعوے بھی کریں مگر ہماری ٹیم بیش تر میچ بچانے کے لیے کھیلتی ہے، جسے جیتنے سے زیادہ نہ ہارنے کی فکر رہتی ہے ۔ یعنی
Glass is half empty
والی بات ہو گئی۔ انگلینڈ 2015 ون ڈے ورلڈ کپ کا ناکام ترین ملک تھا۔ مگر اس کے بعد انگلینڈ کی اپروچ تبدیل ہوئی ۔ اس وقت انگلینڈ دنیا کی مضبوط ترین ٹیم ہے ۔ ان کے موجودہ کوچ برینڈن میک کولم نے جو سبق پوری ٹیم کو پڑھایا وہ جارح مزاجی اور جیت کی لگن کا تھا ۔ آج انگلینڈ کے اس انداز کو "باز بال کرکٹ" کہتے ہیں ، کیونکہ "باز" برینڈن میک کولم کا نِک نیم ہے ۔
برطانوی کپتان بین اسٹوکس کا بھی اس میں کردار ہے، مگر یہ سب رویے کرکٹ بورڈ کی جانب سے آتے ہیں۔
جبکہ ہمارے یہاں بابر اعظم کو کوچز یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ پچاس اوورز یا 20 اوورز کے میچ کی پہلی اور آخری گیند آپ ہی نے کھیلنی ہے، اور اسی وجہ سے بابر اعظم اس تیز رفتار سے نہیں کھیل پاتا جو اس کی صلاحیت ہے۔
یہ کرکٹنگ اپروچ اور مائینڈ سیٹ اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ شاید شاہد آفریدی اور نجم سیٹھی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

5 : قومی کرکٹرز کی باقاعدہ اخلاقی تربیت اور کوڈ آف کنڈکٹ پر رہنمائی

پی سی بی ہر برس قومی کھلاڑیوں کو آئی سی سی کوڈ آف کنڈکٹ پر گائیڈنس دینے کا اہتمام کرتی ہے اور متعلقہ افراد بھی ہر دورے پر ساتھ ہوتے ہیں ۔ مگر یاد رہے کہ آئی سی کوڈ آف کنڈکٹ بھی ٹریفک قوانین یا پاکستانی قانون کی طرح ہی ہوتا ہے ، جو سب نے پڑھ رکھا ہو تو بھی ہر وقت ملحوظِ خاطر نہیں رہتا۔
کھلاڑیوں کی باقاعدہ نگرانی کے علاوہ ان کو مناسب شعور و آگہی دینا بھی لازم ہے ۔ ورنہ ممنوعہ ادویات ، باؤلنگ ایکشن اور فکسنگ اسکینڈلز اسی طرح سامنے آ جاتے ہیں کہ مناسب رہنمائی یا نگرانی میسر نہیں ہوتی۔ آصف ، عامر اور سلمان بٹ کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل، محمد اصف اور شعیب اختر کا نیدرولون (ڈوپ ٹیسٹ) اسکینڈل ، محمد حفیظ ، سعید اجمل محمد حسنین کا باؤلنگ ایکشن ، ناصر جمشید اور شرجیل خان کا فکسرز کو بروقت رپورٹ نہ کرنے کا جرم ، یہ سب کیا ہے؟
اختر عباس بھائی کے الفاظ میں ، بے نیازی میں لٹنے کا غم

شکیب الحسن کو ایک سال کے لیے اسی وجہ سے معطل کر دیا گیا تھا کہ اس نے فکسرز کو بروقت رپورٹ نہیں کیا تھا ۔ مناسب آگہی ہوتی تو کیا ایسا ہوتا؟؟؟ یہ مسئلہ ہم اور ہم جیسے ممالک کا ہے۔

اگرچہ یہ سب چیلنجز سب اپنی جگہ اہم ہیں اور ان میں سے ایک سے بھی بخوبی نپٹ لیا گیا تو قومی کرکٹ کا نصیب سنور جائے گا۔

Comments

HammadYounas

حماد یونس

حماد یونس کالم نگار اور تحقیق کار ہیں جو مختلف نثری جہتوں پر عبور رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو اور انگریزی زبان میں غزل ، نظم اور آزاد نظم بھی کہتے ہیں۔ نمل لاہور سے انگریزی لسان و ادب میں ایم اے کر چکے ہیں ۔

Click here to post a comment