ہوم << قوم کا معمار، سڑکوں پر خوار-اسد الرحمٰن بھٹی

قوم کا معمار، سڑکوں پر خوار-اسد الرحمٰن بھٹی

ے حسی کی انتہا ہو دیکھنا اگر
آکر ہمارے ملک کا دیدار کیجیے

گزشتہ 40 گھنٹوں کے دوران میڈیا پر قوم کے معماران کا لاہور کی سڑکوں پر احتجاج اور اسکے نتیجے میں ہونے والی ٹریفک کے بہاؤ میں تعطلی کی خبریں سننے آ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں سماجی میڈیا پر اساتذہ تنظیموں کی جانب سے سراپا احتجاج اساتذہ کے مسائل اورحقوق کی آواز بلند کی گئی۔ تمام سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور آن لائن بلاگز میں اساتذہ کی مستقلی کے مسئلے کو اجاگر کیا گیا۔

لاہور کی سڑکوں پر سراپاء احتجاج یہ قوم کے معمار کسی سیاسی یا معاشی مقاصد کے حصول کی خاطر نہیں بلکہ گزشتہ 8 سالوں سے اپنے رزق کے حوالے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ احتجاج میں ناصرف مرد اساتذہ کی کثیر تعداد شریک ہے بلکہ مائیں اور بیٹیاں معمارانِ قوم بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ لاہور کی سخت سردی میں بے یارومددگار حکمرانوں کو آواز دے رہی ہیں کہ ہمیں کوئی تنخواہوں میں اضافہ، کوئی اضافی سکیل یا مراعات نہیں چاہیے بلکہ مستقلی کی شکل میں اپنی آنے والی نسلوں کے رزق کی ضمانت اور تسلی درکار ہے۔

اس اضطرابی کیفیت کا آغاز 2017 میں ہوا جب حکومتی قانون ساز ارکان نے پنجاب بھر کے ملازمین کی بعد از بھرتی مستقلی کے دیرینہ مسئلے کے خاتمے کے لیے قانون سازی مکمل کی۔ جس کے نتیجہ میں پنجاب بھر کے ملازمین 4 سالہ ملازمت کی تکمیل کے بعد مستقلی کے اہل قرار پائیں گے۔ اس قانون سازی کے موقع پر پنجاب بھر کے تمام ملازمین کے مسائل کا حل ممکن نہ ہو سکا۔ جس کے نتیجے میں صرف محکمہ تعلیم کے 14000 غیر مستقل ملازمین کی مستقلی کے عمل کو مزید گھمبیر بنا دیا گیا۔

بعد ازاں 2018 میں ہونے والی مستقلی ایکٹ ترمیم کے نتیجے میں پنجاب بھر کے ملازمین کی مستقل ہونے کی کم از کم مدت 3 سال مقرر کر دی گئی مگر اس موقع پر بھی پنجاب بھر کے گزیٹڈ افسران کی مستقلی کے مسئلے کو جوں کا توں رکھا گیا۔ مستقلی معاملہ کی سنگینی کا ادارک کرتے ہوئے محکمہ تعلیم پنجاب کے 14000 ملازمین (ایس ایس ایز/اے ای اوز گزیٹڈ افسران) نے حکومتی ایوانوں کو جھنجھوڑنے کا آغاز کیا۔ 2019 میں پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی ریلی سے کیا گیا بعد ازاں 19 دسمبر 2020 کو بنی گالہ اسلام آباد میں دھرنا/احتجاج کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر انتظامیہ نے شیلنگ کے ذریعے قوم کے معماروں کا استقبال کیا گیا، انتظامیہ و سیاسی راہنماؤں کی طفل تسلیوں سے قوم کے معماران گھروں کو لوٹ آئے۔

چھ ماہ کے طویل صبر اور دلاسوں سے تنگ آ کر قوم کے معماروں نے فیصلہ کن دھرنے کا اعلان کیا اور مارچ 2021 کو گیارہ روز پر مشتمل تاریخ ساز دھرنا دیا۔ بعد ازاں وزیرِ قانون پنجاب اور مشیرِ اطلاعات پنجاب کی یقین دہانی پر اس 11 روزہ دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔ مگر اس وعدہ اور تسلیوں کے نتیجے میں مستقلی ایکٹ میں واحد ترمیم عمل میں لائی گئی جس کے بعد وزیر اعلی پنجاب کو قانونی اختیار سونپ دیا گیا کہ وہ مفادِ عامہ کی خاطر باقاعدہ ٹیسٹ اور انٹرویو کے نتیجے میں بھرتی شدہ سرکاری ملازمین کو مستقل کرنے کے احکامات جاری کر سکے۔

یہ تھا وہ منظر عامہ جس کا ادراک تمام سماجی ایکٹوسٹ اور لاہور کی سڑکوں پر خوار ہونے والے مسافروں کے لئے لازم ہے۔ اس تمام ناانصافی اور زیادتی کے نتیجے میں قوم کی تعمیر کرنے والا معمار اپنی نسل کے غیر یقینی مستقبل کی فکریں لیے در بدر خوار ہو رہا ہے۔ مگر استاد کی عزت کے نام نہاد دعویداروں اور اساتذہ کے ہاتھوں مقام پانے والے قانون سازوں کی ترجیحات میں صرف زبانی جمع خرچ ہے عملی نتیجہ صفر۔

سالہا سال سے سڑکوں پر خوار ہونے کے بعد جب قوم کے معماران ننھے اذہان کے سامنے درس و تدریس کے فرائض کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ تو بچوں کے لیے اپنے رول ماڈل اساتذہ کی سڑکوں پر خواری کا منظر ریاست ماں سے بیزاری کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ریاست کی پے در پے زیادتیاں ان کو دھرتی سے ہجرت یا بغاوت دونوں میں سے کسی ایک راستے کا مسافر بنا دیتی ہے۔ قوم کے معماران کا خوشحال اور محفوظ مستقبل ناصرف نئی نسل میں امید کی کرن جگاتا ہے بلکہ ایک مضبوط اور ذمہ دار ریاست کا عملی مظہر کہلاتا ہے۔

سیاسی لوگوں کی ترجیحات اپنے ووٹ، ترقیاتی بجٹ، سیاسی تعیناتیاں اور سیاسی داؤ پیچ تو ضرور ہیں۔ مگر اپنے استاد کے مستقبل کو ایک دستخط سے محفوظ کرنا ان کی ترجیحات کا نہ کبھی حصہ تھا نہ کبھی ہو گا۔ حکومتی ایوانوں کو جلد از جلد یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ 14000 اضطرابی اذہان سے قوم کی تعمیر کا عمل جاری رکھنا ہےیا پھر ان کے اضطراب کو ختم کر کے آنے والی نسلوں کو مثبت اور محفوظ مستقبل کی نوید دی جائے گی۔

Comments

Click here to post a comment