ہوم << بے بسی دیکھ میرے ہاتھ بھی اب ٹوٹ گئے - وسعت اللہ خان

بے بسی دیکھ میرے ہاتھ بھی اب ٹوٹ گئے - وسعت اللہ خان

منگل کی دوپہر جب یہ حکم پڑھ کے سنایا گیا کہ یونیورسٹیاں بھی طالبات کے لیے شجرِ ممنوعہ ہو چکی ہیں اور کل سے آپ نہیں آئیں گی تو اچانک کمرے کو چند لمحے کے لیے سانپ سونگھ گیا اور پھر سر تا پا حجاب میں لپٹی طالبات نے رونا شروع کر دیا جیسے کوئی عزیز ترین انسان آنکھوں کے سامنے دل کا دورہ پڑنے سے گر گیا ہو۔

جس ٹیچر نے یہ حکمِ حاکم پڑھ کے سنایا وہ بھی بے بس آنکھوں کو آستین سے پونچھتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ کمرہ آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔ کرسیاں جاتی ہوئی طالبات کو تک رہی تھیں۔ بلیک بورڈ پر لکھے حروف باہم آنکھیں چرا رہے تھے۔ دیواروں کے بس میں ہوتا تو ان طالبات کو اپنے اندر سمو لیتیں۔ فرش پر تاریک مستقبل کا لاشہ تھا اور اردگرد خوابوں کی کرچیاں بکھری پڑی تھیں۔
یہ افتاد اچانک نہیں ٹوٹی۔ اسے صرف طالبانی سوچ پر منڈھ دینا خود کو دھوکا دینا ہے۔

افغانستان کو پاکستان، امریکا اور اس کے حواریوں نے ایک بوجھ سمجھ کے اس بار بھی سر سے اتار پھینکا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ افغانستان کا جس سے عقدِ ثانی کیا جا رہا ہے وہ کون ہے۔اس کی سوچ کیا ہے۔ وہ پہلے بھی اس منکوحہ کے ساتھ کیا کیا کر چکا ہے۔ مگر سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے بعد بھی اسی سوچ کے حوالے کر دیا گیا جس سے بچنے کے لیے افغان روح ایک خرکار سے دوسرے خرکار کے ہاتھوں بکتی لٹتی گرتی پڑتی بھاگتی رہی پھر بھی اس کی ایک نہ چلی۔ اب یہی جبری شادی کروانے والے بے ضمیر مامے چاچے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے ایسے معصوم بن رہے ہیں جیسے انھیں اس کی توقع نہیں تھی۔

دھوکے بازوں نے خود پر ایسے چہرے طاری کر لیے ہیں گویا افغانوں کے ساتھ نہیں بلکہ انھیں مفت میں تاریکی کے حوالے کرنے والوں کے ساتھ دھوکا ہوا ہو۔ موقع پرستی کے قالین پر کھڑی خباثت جب تاریکی سے ہاتھ ملا لے تو یہی ہوتا ہے جو افغانستان کے ساتھ ہو رہا ہے۔کسی کو توقع نہیں تھی کہ امریکا کی رخصتی کے بعد ملک میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ بس ایک تصور بیچا گیا کہ غلامی ختم ہو جائے گی اور امن و امان قائم ہو جائے گا مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔

جنھوں نے گزشتہ بائیس برس تک افعان معیشت کو ریپ کیا وہ تو کب کے دفعان ہو گئے۔ اس کے باوجود امن و امان پہلے سے زیادہ بے قابو ہو گیا۔ داعش اور اس کے ہم خیال گروہوں پر تو بس نہیں چل پا رہا۔ تو اب اس ناکامی کا غصہ کس پے نکالا جائے۔ عورت سے بہتر ہدف بھلا کیا ہو سکتا ہے۔چنانچہ قطر سمجھوتے میں گول مول وعدوں سے یہ کام شروع ہوا۔

کابل پر قبضے کے فوراً بعد امن و امان کی بحالی تک ملازمت پیشہ خواتین کو ’’ عارضی طور پر ‘‘ گھروں تک محدود رہنے کا حکم ملا۔ یہ وعدہ کیا گیا کہ تنخواہ ملتی رہے گی اور جب نیا ضابطہِ اخلاق تیار ہو جائے گا تو پھر آپ کو ملازمتوں پر واپس آنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ نئی تعلیمی پالیسی آنے تک پرائمری سے یونیورسٹی تک تمام طالبات کو گھروں میں انتظار کرنے کو کہا گیا پھر بتایا گیا کہ وہ سر تا پا حجاب میں علیحدہ کلاس رومز میں بیٹھ کر خواتین یا عمر رسیدہ اساتذہ سے تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔یعنی جہاں یہ دونوں سہولتیں مسیر نہ ہوں وہاں پڑھائی نہیں ہو گی۔

( غالباً پالیسی سازوں نے یہ چھان پھٹک بھی کلی طور پر کر لی ہو گی کہ عمر رسیدہ مرد نفسانی خواہشات و مخربِ اخلاق خیالات سے پاک ہوتے ہیں جب کہ نسبتاً جوان اساتذہ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی )۔

مگر اگلے چھ ماہ میں طالبان انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچی کہ مشروط اجازت کے باوجود خانہ ساز تشریحاتی شرعی تقاضے پورے نہیں ہو رہے۔ چنانچہ چھٹی کلاس سے اوپر کی تعلیم ہی طالبات کے لیے حرام قرار دے دی جائے۔یوں اس سال مارچ میں طالبات کو سیکنڈری اسکولوں میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا۔

لیکن اب سے تین ماہ پہلے سب کو حیرت ہوئی جب طالبان انتظامیہ نے اعلان کیا کہ طالبات ملک کی نجی و سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلے کے امتحان میں بیٹھنے کی اہل ہیں۔ہزاروں لڑکیوں نے خوشی خوشی داخلے کی اہلیت کا امتحان دیا۔ اکثر طالبات کا خواب تھا کہ وہ ڈاکٹر ، انجینیر، سائنسداں یا سوشل سائنٹسٹ بنیں۔ پھر طالبان کی فیصلہ ساز قندھاری شوری نے غالباً اس نکتے پر غور کیا ہوگا کہ جب چھٹی جماعت سے اوپر کی تعلیم لڑکیوں کے لیے مناسب نہیں تو یونیورسٹیوں تک یہ لڑکیاں کیسے پہنچ پائیں گی۔ چنانچہ سیکنڈری اسکولوں میں طالبات کے داخلے پر سے پابندی اٹھانے کے بجائے مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ یونیورسٹیوں کے دروازے ہی طالبات پر بند کر دیے جائیں۔

اور پھر گذرے منگل کو اعلیٰ تعلیم کے وزیر مولوی ندا محمد ندیم نے سرکاری ٹیلی ویژن پر اعلان کیا کہ چونکہ اکثر طالبات لباس کے بارے میں اسلامی احکامات پر پوری طرح عمل نہیں کر پا رہیں، چونکہ وہ محرم کو ساتھ لے کر یونیورسٹی آنے جانے کی پابندی کو بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہیں، چونکہ وہ سادہ لباس کے بجائے زرق برق کپڑے پہن کر پڑھنے آ رہی ہیں گویا کسی کی شادی میں شرکت کے لیے جا رہی ہوں۔ چونکہ اس رجحان سے فحاشی کے فروغ کا خدشہ ہے۔ چونکہ بعض سائنسی مضامین بشمول انجینیرنگ و زرعی ٹیکنالوجی کی تعلیم افغان روایات و اسلامی ثقافتی اقدار سے لگا نہیں کھاتی۔ لہٰذا ہمیں دل پر پتھر رکھ کے فیصلہ کرنا پڑا ہے کہ یونیورسٹیاں خواتین کے لیے موزوں نہیں۔ آج کے بعد لڑکیاں یونیورسٹی آنے کی زحمت نہ کریں۔

اس اعلان کے اگلے دن یونیورسٹیوں کے دروازوں پر مسلح محافظ تعینات کر دیے گئے تاکہ خود سر طالبات داخل نہ ہو سکیں۔ لگ بھگ پچاس طالبات اور ان کی ماؤں نے کابل شہر کے وسط میں احتجاج کی کوشش کی جنھیں زنانہ پولیس کی مدد سے مار پیٹ کے منتشر کر دیا گیا۔کچھ خواتین کو حراست میں بھی لیا گیا اور بعد میں ورثا کی جانب سے ’’ اچھے کردار ‘‘ کا مظاہرہ کرنے کی ضمانت پر گھر جانے دیا گیا۔ کیونکہ چالیس کیلومیٹر سے زائد بنا محرم کے سفر پہلے ہی حرام قرار پا چکا ہے اور پارکوں اور تفریح گاہوں میں بھی خواتین کا داخلہ ممنوع ہے۔ مغربی دنیا اور اقوامِ متحدہ نے توقع کے عین مطابق اس اقدام کی مذمت کی۔

پاکستان اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ بھی ششدر رہ گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین پر تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کرنا کوئی انسانی یا شرعی عمل نہیں۔ اب آپ لاکھ کہتے رہیں کہ طالبان مذہب کی درست تشریح نہیں کر رہے اور ہمارا اسلام ان کے نظریے سے بالکل مختلف ہے۔ ایک ایک کو پکڑ پکڑ کے یہ لطیف نکتہ سمجھانے کے لیے قیامت تک وقت ہی وقت ہے۔ کم ازکم اس بابت فکر نہ کیجیے گا۔

Comments

Click here to post a comment