ہوم << داستانِ حج 1440 ھ ، آخری قسط (27) - ابو اساور شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ ، آخری قسط (27) - ابو اساور شاہ فیصل ناصرؔ

منگل ١١ محرم الحرام ١٤٤١ ھ۔ بمطابق 10 ستمبر2019ء

فجر کے فورا بعد میں ،حاجی شیررحمان اور عبدالجبار پیدل مسجدقباء روانہ ہوئے۔ گیٹ نمبر 6 سے نکل کر کھجور مارکیٹ سے گزر گئے۔ مین روڈ کراس کرکے قباء کی طرف سیدھا جانے والی وسیع گلی پر روانہ ہوئے۔ مدینہ منورہ کی گلیوں میں پیدل چلنے کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔راستے میں مسجد الجمعہ آیا اور کچھ آگے قباء کی بستی تھی۔

مسجد قباء پہنچ کر نماز پڑھ لی اور کچھ وقت اسلام کی اس ابتدائی مسجد میں گزارا۔ واپسی گاڑی میں کی۔ ناشتہ کے بعد سودے کیلئے بازار نکل گئے۔ ظہر کے بعد غسل کرکے سفر کیلئے تیاری کیا اور سامان باندھا۔ عصر کے بعد سامان کمرے سے اتار کر لاونج میں لایا۔ مغرب کے بعد ابوسعید سے ملنے مدینہ کے مغربی علاقہ ”حیص” گئے۔ ان سے الوداعی ملاقات کرکے رخصتی لی۔ واپس راستے میں کھجور خریدکر نماز عشاء گیٹ نمبر 22 کے سامنے ادا کی۔ ہوٹل جاکر کھانا کھایا اور سامان برابر کرکے میں واپس مسجد نبویﷺ آیا۔ تحية المسجد ادا کرکے، آپﷺ کے روضہ مبارکہ پر آخری سلام پیش کیا اور بوجھل قدموں سے ہوٹل واپسی کی۔

اب ہم بس کے انتظار کرنے لگے ۔ رات 12:30بجے یعنی 11 ستمبر شروع ہوتے ہی ہم مدینہ کو الوداع کرتے ہوئے بسوں میں سوار ہوئے تقریبا گھنٹہ سے زیادہ وقت بس میں انتظار کیا اور پھر پاسپورٹ وصول کرکے مدینہ ائیرپورٹ روانہ ہوئے ۔2:30 پر پرنس عبدالعزیز ائیر پورٹ مدینہ پہنچ گئے۔ سامان کی وصولی اور کاؤنٹر پر جمع کرنے کے بعد پاسپورٹ پر خروج لگانے کیلئے آگے بڑھے۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود اہلکار نے مجھے اگلے کاونٹر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا،”اذھب إلى فهد” میں نے برجستہ جواب دے کر کہا ،“هوفهد وأنا فيصل” وہ دونوں مسکرائے۔ تقریبا 5 بجے انتظار گاہ پہنچ گئے۔

وضو بنا کر نماز فجر باجماعت ادا کی۔ اور پھر مدینہ منورہ کی ایئرپورٹ دیکھنے لگا۔ خوبصورت، صاف ستھرا اور کافی مصروف ائیرپورٹ ہے۔ اسی وقت ملتان کیلئے ائیربلو، انڈونیشیا، دبئی اور افغانستان کیلئے فلائٹس تھے۔ ہمارا فلائٹ 15 منٹ لیٹ تھا۔ ہمارے طیارے سعودی ایئرلائنز SV-796 کی بورڈنگ 6:50 پر شروع ہوئی۔ یہ تقریبا تین سو مسافر کی گنجائش رکھنے والا طیارہ تھا۔ میں کھڑکی سے متصل سیٹ نمبر 27 پر بیٹھ گیا۔جہاز نے 7:50 پر اڑان بھری۔ ذرا اوپر جانے پر مدینہ منورہ کی کالی پتھروں والی زمین ”حرتین” واضح نظر آئی۔ پھر جوں جوں جہاز اوپر اور آگے جاتا مدینہ منورہ سے جدائی بڑھتی۔

اب آبادی کے بجائے صحرا اور پہاڑ نظر آتے لیکن پھر بھی جگہ جگہ گاڑیوں کی حرکت نظر آتی کیونکہ سعودی میں سڑکوں کا ایک نہ ختم ہونے والا جال بچایا گیا ہے۔ چند منٹ بعد بیلٹ کھولنے کے سائرن بج گئے۔ موسم خوشگوار اور فضا صاف تھی اسلئے نیچے زمین واضح نظر آتی۔ سفر کی دعائیں ذکرواذکار اور کچھ وقت نیچے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد اپنی سیٹ کونیچے کرکے سونے کا ارادہ کیا۔ بقیہ فضائی سفر کچھ نیند اور کچھ بیداری میں طے کرکے تقریبا ایک بجہ پاکستانی حدود میں داخل ہوئے۔

بلوچستان کے پہاڑی سلسلے عجیب و غریب مناظر پیش کررہے تھے۔ جہاز خیبر پختونخواہ کی حدود میں داخل ہوکر نیچے دیہات اور سبز کھیت نظر آئے۔ کوہاٹ ٹنل کے اوپر سے گزر کر ہمارے جہاز نے پشاور کے مضافاتی علاقے کے گرد چکر لگایا اور ظہر 2:55 بجے پشاور انٹرنشینل ائیرپورٹ پر لینڈنگ کی۔ جہاز سے اترنے اور سامان کے حصول میں کافی وقت گزر گیا۔ سامان حاصل کرکے جلد نکلنے کی سوچ نے ساتھیوں کو ایک دوسرے سے بے پروا کئے۔ باہر لوگوں کی بڑی تعداد اپنے عزیز و اقارب کی استقبال کیلئے آئے تھے۔ ہمارے استقبال کیلئے بھی چچا دیارمحمد، عبدالقیوم، ڈرائیور فضل منان اور صلاح الدین اپنے ساتھی سمیت آئے تھے۔ ائیرپورٹ سے نکلنے میں کافی وقت لگ گیا اور پھر بی آر ٹی منصوبہ کی وجہ سے بگڑے ہوئے پشاور سے نکلنا کسی مہم جوئی سے کم نہ تھا۔ دوست احباب کے فون کالز آنے شروع ہوئے تھے۔

ہمیں بھوک بھی لگی ہوئی تھی، بروقت گھر پہنچنے کی جلدی بھی تھی اور ابھی تک ظہر کی نماز بھی نہیں پڑھی تھی۔ اسلئے پشاور سے نکل کر ورسک روڈ پر ظہر و عصر صلاتین پڑھ لیا۔نماز مغرب یکہ غنڈ ضلع مہمند میں ادا کرکے کھانا کھایا۔ ہمارے فلائٹ کے دوسرے حجاج کرام بھی اپنے قافلوں سمیت محو سفر تھے۔ 9 بجے ہم اپنے ضلع باجوڑ کی حدود میں داخل ہوئے۔ لوئی سم میں اسامہ اور ڈاکٹر مجیب الرحمن استقبال کیلئے کھڑے تھے۔ آگے چل کر شنڈئ موڑ میں حاجی میرعلی خان اپنے پٹرول پمپ میں منتظر تھا۔ ان کے ساتھ تھوڑا وقت گذار کر آگے ماموں اور ان کے ہمسائیے ہمارے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ مل گئے، لیکن وقت گذارنے سے معذرت کی۔ کیونکہ گاوں میں بعض مہمان ہمارے منتظر تھے۔

تقریبا 10 بجے گاوں پہنچ گئے۔ عجیب موافقت تھی کہ ہم صبح دس بجے (پاکستانی وقت کے مطابق)مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور رات دس بجے گھر پہنچ گئے۔ یعنی 12 گھنٹے میں ہم مدینہ سے گھر پہنچ گئے۔ الحمد للہ پورا سفر بخیروعافیت مکمل ہوا۔ ادھر گاوں میں بھی خیریت تھی۔ ہم نے سنت نبوی ﷺ کے مطابق گھرداخل ہونے سے قبل مسجد میں نوافل ادا کئے۔ مہمانوں اور گھر والوں سے مل کر کچھ وقت گزارنے کے بعد سوگئے۔اگلی صبح قرب و جوار سے عزیزواقارب اورعام لوگ ہمارے ہاں آنا شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہا جس میں دور دراز سے دوست و احباب تشریف لاتے اور ہم انہیں مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے دلچسپ واقعات بیان کرتے۔

لوگ ہماری عزت کیلئے نہیں آتے بلکہ اللہ کے اس معززومحترم گھر بیت اللہ مکہ مکرمہ اور آپﷺ کی مسجدنبوی اور دار ہجرت مدینہ طیبہ کی عزت کی واسطے آتے۔ ہمیں بھی اس سفر کی وجہ سے عزت ملی تھی۔ وہاں کی یادیں ہر وقت ذہن پر طاری ہوتی ہے۔ بسا اوقات خواب میں شرف زیارت نصیب ہوکر دل مطمئن ہوتا ہے۔ اب جبکہ عرصہ بیت گیا اور ہمارے حج کو کئی سال ہوئے ۔ تصور میں اب بھی اپنے آپ کو حرم مکی اور حرم مدنی کی اندر محسوس کرتے ہیں۔

بس یادیں ہیں جو کچھ بھول کر نہیں آتے ۔

اللہ تعالی ہماری حج کو مبرورومقبول بنائے۔

ہماری خطاوں سے درگذر اور گناہوں کو معاف فرمائے۔ تمام مسلمانوں کو اپنے گھر اور اپنے حبیب ﷺ کی مسجد کی زیارت نصیب فرمائے۔ اللہ تعالی میری اس کاوش کو خالص اپنی رضا کے حصول کاذریعہ، اپنے محبوب محمدمصطفیﷺ کی شفاعت کا سبب,
میرےاور میرے والدین کیلئے آخرت کی نجات اور عام مسلمانوں کیلئے فائدے کا ذریعہ بنائے۔ آمین

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِىْ بِنِعْمَتِه تَتِمّ الصّالحاتُ..تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہے جس کے انعام کے باعث ہی نیک کام مکمل ہوتے ہیں۔(ابن ماجہ۔ 3803) ختم شدہ